جگ میں اک سیل بے کراں ہو گا دل کا اک اشک جب عیاں ہو گا پرتو خر سے جسم ڈھانپے ہوئے تیرے پہلو میں آسماں ہو گا مجھ میں مجھ سا نہیں رہا کچھ بھی بے دلی میرا دل کہاں ہو گا شور اٹھتا ہے دل کے جانے کا ایک ہنگامہ رایگاں ہو گا تنہا رہتا ہے سوچتا ہے بہت تو خدائی سے بدگماں ہو گا گنجلک شعرِ موئے یار ہوئے دام میں دم بہ دم جہاں ہوگا لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا یعنی رگ رگ دھواں دھواں ہو گا خندۂ یار برقِ طوفاں ہے گریہ کس قہر کا نشاں ہو گا