از شمس الرحمان فاروقی میری زبانی اس مقالہ میں فاروقی صاحب اوّلاً اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا یہ تصور کہ تخلیق و تنقید برابر ہیں واقعی درست ہے یا نہیں۔ اس کی توضیح کے لئے فاروقی صاحب چند مفروضوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ سب سے پہلے وہ اس سوال پر ہماری توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ آیا در واقع تنقید کا کوئی ہم سر یا ہم سفر ہو سکتا ہے ۔ چند حضرات چونکہ تخلیق و تنقید کو ایک دوسرے کا ہم سفر یا ہم سر منوانے پر مصر ہیں شاید فارقی صاحب اس موازنہ کو غلط ثابت کرنے کی راہ نکال رہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف لوگ یوں معترض ہیں کہ جن سے تخلیق بن نہیں پڑتی وہ تنقید کی دکان کھول لیتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو تنقید کو تخلیق کا ہمسر و ہم سفر کہانے پر مصر ہیں سو اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی مقالے یا مباحثہ میں فاروقی صاحب ان دو گروہوں میں سے کس کی بات کی حمایت کرتے ہیں یا کوئی تیسری راہ نکالتے ہیں۔ میری رائے میں اس کا مقصد صرف اور صرف مقالمے کا آغاز ہے (جو شاید اتنا اچھا آغاز نہیں بهرحال ۔۔۔ ) تا کہ قاری کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ دراصل تنقید کا مقام تخلیق سے کمتر ہی ہے۔ اب دوس