Skip to main content

Posts

Showing posts from August, 2020

جھوٹ

ضیاء الحق کی بڑی  سی تصویر نیلم دریا کے کنارے چلتی جا رہی ہے، اسطرح کہ خود اُسکی ننھی سی ٹانگیں نکل آئی ہوں۔ کشمیر لبریشن فرنٹ کے نعرے " کشمیر بنے گا خودمختار" سی ایم ایچ کی دیوار پر لکھے ہیں، جنھیں جنرل ضیاء کی تصویر بڑی نفرت کی نگاہ سے گھور رہی ہے۔  " کشمیر بنے گا ۔۔۔"  تصویر نے یوں نعرا لگایا جیسے اس کے گرد ایک جمِ غفیر ہو جو ببانگ دہل، جوابا نعرا لگا رہا ہو  " پاکستان"۔ افغن ٹی ہاوس کے بھدے سبز پینٹ کی پپڑیاں بس اکھڑنے کو ہیں، دیوار کے عین وسط میں یاسر عرافات کی تصویر  آویزاں ہے۔ اسد  اپنے باپ کی طرف دیکھتا ہے اور اسکا اشارہ ملتے ہی ہتھوڑی اور میخ اٹھا کر دیوار کی طرف بڑھتا ہے۔ چند منٹوں بعد ہی اب افغن ٹی ہاوس میں یاسر عرافات اور جنرل ضیاء دونوں ٹنگے ہیں۔ ٹی ہاوس کے ہر گاہک کو پتا ہے کہ یہودیوں اور لادینی روسیوں کو سروناش کرنے والے دو وردی پوش مجاہد افغن ٹی ہاوس میں رہتے ہیں۔ اسد تصویر لٹکاتے ہی فورا اس ڈبے کی طرف دوڑتا ہے جس میں رومی کی پُتلی ادھ موئی پڑی ہے۔  اسد کے ہاتھوں میں آتے ہی رومی کی مردہ پتلی میں جان پھونک دی جاتی۔ گھ

مرشد ‏کی ‏قسم

زمین پر بیٹھتے ہی مقبول نے اپنے گیلے ہاتھ اپنی نسواری قمیض سے پونچھے اور قصہ سنانا شروع کیا۔  حاجی افضال نے، جو اس وقت صرف فضلو تھا، کچھ تامل کے بعد وہ معجون یا سفوف یا جو بھی تھا پھک لیا۔ افتی اور شامی دونوں مُسک رہے تھے۔  "ما چو 15 منٹ کی بات ہے یہ تن کے سیدھا ہو جائے گا۔ لگا رہیں رات ساری فر "  فضلو کی سہاگ رات تھی اور یہ دوست اس کا بھلا چاہتے ہی ہونگے اب نیتوں کا حال تو خدا جانے، واللہ اعلم،  پر گولڑے کی کسی خاص دکان سے لائے تھے یہ سفوف یا معجون یا جو بھی تھا۔  حکیم نے کہا تھا بوڑھے کھائیں تو جوان ہو جائیں، اور جوان کھائیں تو حیوان ہو جائیں اور حیوان اب کھائیں تو پتا نہیں کیا ہو۔ پر حیوان کیوں کھانے لگے یہ معجون سر جی۔ ان کو تھوڑا ہی نا سرعتِ انزال کا مسئلہ ہوتا ہو گا۔ اور ہوتا بھی ہو اس کا کوئی ربط ان کی انا سے تھوڑا ہی نا ہوتا ہو گا،جو ہو گیا تو ہو گیا۔ اچھا، سنیں۔۔۔ اب دوستوں نے مسکتے ہوئے اسے اندر بھیج دیا۔ اماں جی مسکراتے مسکراتے اسے گھور رہی تھیں۔ ابا جی تو کب کے لیٹنے کی تیاری میں تھے۔ چھوٹا سا تو گھر ہے انکا۔ دو تو کمرے ہیں۔ یا یوں کہو کہ کمرا ایک  ہے اور ایک برآم