Skip to main content

Posts

Showing posts from 2020

جھوٹ

ضیاء الحق کی بڑی  سی تصویر نیلم دریا کے کنارے چلتی جا رہی ہے، اسطرح کہ خود اُسکی ننھی سی ٹانگیں نکل آئی ہوں۔ کشمیر لبریشن فرنٹ کے نعرے " کشمیر بنے گا خودمختار" سی ایم ایچ کی دیوار پر لکھے ہیں، جنھیں جنرل ضیاء کی تصویر بڑی نفرت کی نگاہ سے گھور رہی ہے۔  " کشمیر بنے گا ۔۔۔"  تصویر نے یوں نعرا لگایا جیسے اس کے گرد ایک جمِ غفیر ہو جو ببانگ دہل، جوابا نعرا لگا رہا ہو  " پاکستان"۔ افغن ٹی ہاوس کے بھدے سبز پینٹ کی پپڑیاں بس اکھڑنے کو ہیں، دیوار کے عین وسط میں یاسر عرافات کی تصویر  آویزاں ہے۔ اسد  اپنے باپ کی طرف دیکھتا ہے اور اسکا اشارہ ملتے ہی ہتھوڑی اور میخ اٹھا کر دیوار کی طرف بڑھتا ہے۔ چند منٹوں بعد ہی اب افغن ٹی ہاوس میں یاسر عرافات اور جنرل ضیاء دونوں ٹنگے ہیں۔ ٹی ہاوس کے ہر گاہک کو پتا ہے کہ یہودیوں اور لادینی روسیوں کو سروناش کرنے والے دو وردی پوش مجاہد افغن ٹی ہاوس میں رہتے ہیں۔ اسد تصویر لٹکاتے ہی فورا اس ڈبے کی طرف دوڑتا ہے جس میں رومی کی پُتلی ادھ موئی پڑی ہے۔  اسد کے ہاتھوں میں آتے ہی رومی کی مردہ پتلی میں جان پھونک دی جاتی۔ گھ

مرشد ‏کی ‏قسم

زمین پر بیٹھتے ہی مقبول نے اپنے گیلے ہاتھ اپنی نسواری قمیض سے پونچھے اور قصہ سنانا شروع کیا۔  حاجی افضال نے، جو اس وقت صرف فضلو تھا، کچھ تامل کے بعد وہ معجون یا سفوف یا جو بھی تھا پھک لیا۔ افتی اور شامی دونوں مُسک رہے تھے۔  "ما چو 15 منٹ کی بات ہے یہ تن کے سیدھا ہو جائے گا۔ لگا رہیں رات ساری فر "  فضلو کی سہاگ رات تھی اور یہ دوست اس کا بھلا چاہتے ہی ہونگے اب نیتوں کا حال تو خدا جانے، واللہ اعلم،  پر گولڑے کی کسی خاص دکان سے لائے تھے یہ سفوف یا معجون یا جو بھی تھا۔  حکیم نے کہا تھا بوڑھے کھائیں تو جوان ہو جائیں، اور جوان کھائیں تو حیوان ہو جائیں اور حیوان اب کھائیں تو پتا نہیں کیا ہو۔ پر حیوان کیوں کھانے لگے یہ معجون سر جی۔ ان کو تھوڑا ہی نا سرعتِ انزال کا مسئلہ ہوتا ہو گا۔ اور ہوتا بھی ہو اس کا کوئی ربط ان کی انا سے تھوڑا ہی نا ہوتا ہو گا،جو ہو گیا تو ہو گیا۔ اچھا، سنیں۔۔۔ اب دوستوں نے مسکتے ہوئے اسے اندر بھیج دیا۔ اماں جی مسکراتے مسکراتے اسے گھور رہی تھیں۔ ابا جی تو کب کے لیٹنے کی تیاری میں تھے۔ چھوٹا سا تو گھر ہے انکا۔ دو تو کمرے ہیں۔ یا یوں کہو کہ کمرا ایک  ہے اور ایک برآم

ماہی ‏سیاہ ‏کوچولو ‏‏

سردیوں کی سب سے لمبی رات یعنی شبِ یلدا تھی۔ ندی کی تہہ میں ایک بوڑھی مچھلی نے اپنے 12000 بچوں اور نواسے نواسیوں کو اکٹھا کیا اور کہانی سنانی شروع کی :  تو بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دور ایک  وادی میں ایک ندی تھی جہاں ایک چھوٹی سی  کالی مچھلی اپنی اماں کے ساتھ رہا کرتی تھی، نام تھا اس کا ماہی کوچولو۔ ماہی یعنی مچھلی اور کوچولو یعنی چھوٹی سی پاری سی۔ ندی کا پانی پہاڑ کے پتھروں سے نکل کر وادی کی گہرائیوں میں کھو جاتا تھا۔ ماہی کوچولو اور اس کی اماں کا گھر ایک کالے پتھر کے پیچھے تھا جس پر کائی جمی ہوئی تھی۔ رات ہوتی تو ماں بیٹی دونوں کائی کے نیچے  خاموشی سے سو جاتیں۔ ماہی کوچولو کی بڑی خواہش تھی کہ کوئی ایسی رات بھی ہو کہ کسی صورت چاند کی روشنی اسکے گھر میں دیکھنے کو ملے پر اس کائی جمے  کالے پتھر کو چاند کی روشنی کہاں نصیب ہونا تھی۔ دونوں ماں بیٹی ایک چھوٹی سی ندی میں صبح سے شام ایک دوسرے کے آگے پیچھے تیرتے رہتے۔ کبھی کبھی دوسری مچھلیاں بھی ساتھ ہو لیتیں اور زندگی ایک چھوٹے سے دائرے میں گھومتی رہتی۔ ماہی کوچولو بہت عقل مند تھی اور شاید اسکی یہ وجہ تھی کہ اس کی اماں کے 10000 انڈوں میں سے اک

sunbeam's bedsheet

chess piece of heart

blood

marinated wounds

jag main ik sel-e-baykaran ho ga

جگ   میں اک سیل بے کراں ہو گا دل  کا اک اشک جب عیاں ہو گا  پرتو خر سے جسم ڈھانپے ہوئے  تیرے پہلو میں آسماں ہو گا  مجھ میں مجھ سا نہیں رہا کچھ بھی بے دلی میرا دل کہاں ہو گا شور  اٹھتا ہے  دل کے جانے کا ایک ہنگامہ  رایگاں ہو گا تنہا رہتا ہے سوچتا ہے بہت  تو خدائی سے بدگماں ہو گا گنجلک شعرِ موئے یار ہوئے  دام میں دم بہ دم جہاں ہوگا لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا  یعنی رگ رگ دھواں دھواں ہو گا خندۂ یار برقِ طوفاں ہے   گریہ کس قہر کا نشاں ہو گا