Skip to main content

Posts

Showing posts from 2019

کیا نقاد کا وجود ضروری ہے

از شمس الرحمان فاروقی میری زبانی اس مقالہ میں فاروقی صاحب اوّلاً اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا یہ تصور کہ تخلیق و تنقید برابر ہیں واقعی درست ہے یا نہیں۔ اس کی توضیح کے لئے فاروقی صاحب چند مفروضوں کا سہارا لیتے ہیں ۔  سب سے پہلے وہ اس سوال پر ہماری توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ آیا  در واقع تنقید کا کوئی ہم سر یا ہم سفر ہو سکتا ہے ۔  چند حضرات چونکہ تخلیق و تنقید کو ایک دوسرے کا ہم سفر یا ہم سر منوانے پر مصر ہیں شاید فارقی صاحب اس موازنہ کو غلط ثابت کرنے کی راہ نکال رہیں ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف لوگ یوں معترض ہیں کہ جن سے تخلیق بن نہیں پڑتی وہ تنقید کی دکان کھول لیتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو تنقید کو تخلیق کا ہمسر و ہم سفر کہانے پر مصر ہیں سو اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی مقالے یا مباحثہ میں فاروقی صاحب ان دو گروہوں میں سے کس کی بات کی حمایت کرتے ہیں یا کوئی تیسری راہ نکالتے ہیں۔ میری رائے میں اس کا مقصد صرف اور صرف مقالمے کا آغاز ہے (جو شاید اتنا اچھا آغاز نہیں بهرحال ۔۔۔ ) تا کہ قاری کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ دراصل تنقید کا مقام تخلیق سے کمتر ہی ہے۔  اب دوس

Raag Puravi aur meri Guitar ki Kavishain

راگ پوروی راگ  پوروی کافی اداس راگ ھے۔  اور مجحھے بےحد پسند ہے۔ آج گیٹار پر غلطی سے کچھ نوٹس بجائیں تو دل کو بہت تسکین ہوئی۔ ٹوہ لگائی تو معلوم ہوا کہ بھائی یہ تو آپ کا پسندیدہ راگ ہے۔ انگریزی کے مشہور سکیلز  میں اس جیسا کوئی راگ آپکو نہیں ملے گا۔ گیٹار پر اس کو بجانے کے لیےمیں جن سروں کا استعمال کر رہا تھا وہ ہیں  E F G# Bb B C Eb E    یوں کہیے کہ یہ راگ پوروی ہے جس کی روٹ نوٹ ای ہے ، یعنی یہ راگ راگ پوروی ای سے مسموم کیا جا سکتا ہے۔ یہ جو سروں کا جمگھٹا ہے یعنی  ای مائنر ، ای اور ایف اور ساتھ ہی بی مائینر ، بی اور سی یہ سروں کے مابین برابر فاصلے کو قائم نہیں رہنے دیتا اور یوں یہ آھنگِ عتبہ عدم توازن  غم و اندوہ کی سی کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ آروہنا  : سا ،کومل رے ، گا ، تیور ما ، پا ، کومل دھا ، نی، سا اورہنا : سا ، نی ،کومل دھا، پا ، تیور اور کومل ما دونوں کا استعمال،    گا ، کومل رے ، سا  جاتی : سمپورن وادی : گا سموادی : نی پکڑ  : میرے خیال میں پکڑ شاید وہ سروں کی  پرمیوٹیشن ہیں جن کا استعمال راگ کو پہچاننے کے لیے کارآمد ہو سک

Baykali

بے کلی دیکھ بوڑھے پھولوں کی اک کلی پھر نکھر گئی ہو گی ہم سی تھی زلف ِ شب پریشاں تو بین کرتے بکھر گئی ہوگی رضی حیدر — Razi Haider (@srazihaider) April 7, 2019

Mishgan e shamma

مژگانِ شمع اٹھتے دھواں سا اٹھا رہا  خنجر چلے ہے دل په اٹھ کر کدھر چلے  دورِ مدام تابفنا یوں چلا که شمع   دل گال دے اسی جا جہاں آگ پر چلے

Main khalaq ul maani hon

میں خلاق المعانی ہوں؟ میں خلاق المعانی تھا؟  میں بس آزدہ ہوں جانی، بصد آزردہ جانی تھا درونِ داستاں اک داستاں تھی داستاں میری میں جو ہوں داستانِ داستاں اس کی زبانی تھا میں بھولوں بھول جاؤں کیسے خود کو بھول جاؤں کیا  گماں کی آفرینش یا گماں کی بدگمانی تھا  وہ مَن مَن خود کلامی عارضه تھی سو ہے حق لاحق  یہ مِن مِن ہر زباں کو ہے مرا طرزِ زبانی تھا  ترے پستان تھے نوکِ زباں تھی میری اور غم تھا   جنوں کو اے ہوس که دائمی جو بھی ہے فانی تھا

iss qatl gah main

اس قتل گہہ چرخ میں ہیں دام نہاں اور  چرخ اور قہر اور الم اور گماں اور اس قتل گہہ چرخ میں ہیں دام نہاں اور چرخ اور قہر اور الم اور گماں اور رضی حیدر — Razi Haider (@srazihaider) April 5, 2019

raat salon main thee

رات سالوں میں تھی مگر ہم پر  سال بھی تو گزر ہی جاتے ہیں  ہم میں ہم تھے نہیں رہے تو کیا   ہم سے رہتے نہیں گزر ہی جاتےہیں   ہم سے ایسے ہیں درہم و برہم   اپنے دیوار و در جلاتے ہیں   ہم نے مرنا ہے مر گئے ہونگے    تیری باہوں میں مر ہی جاتے ہیں سوچتے ہیں سبھی که ہیں موجود  پھر یہ بسمل کدھر کو جاتے ہیں  دل جلے ہیں سو دل جلائیں کیا  دل جلے ہوں تو دل جلاتے ہیں  سانس کے چھل میں اور کیا گزرے   رک گئے جو گزر ہی جاتے ہیں   اک مدام اور پہلوئے جانا    ہم کہ مرتے مکر ہی جاتے ہیں    کج نگاہ ہیں یہ آسماں والے    چل زمیں پر ہی گھر بناتے ہیں

Shama banaya hoga

رووے ہے آنکھ بارے، پگلے ہے دل بھی یکسر ،   خاک آدمی ہے تو نے شمع بنایا ہو گا View this post on Instagram #rekhta #rekhtafoundation #urdupoetry #urdu #ghazal #urdughazal #islamabad #lahore #shairi #delhi A post shared by Razi (@haider_razi_me) on Jun 2, 2019 at 5:00am PDT

Darpan

View this post on Instagram #urdupoetry #nihilistmemes #narcissus #urdu #urdusher #philosophy #think #mushaira #hindi #hindisher #rekhtashayari #rekhta #rekhtafoundation A post shared by Razi (@haider_razi_me) on Jun 1, 2019 at 5:32am PDT

zulf e khamdar

زلفِ خمدار کے پھندوں پہ مرے جانے والے  ہم سے بیمار جنھیں دار پہ جینا آیا اوس پیشانیِ گل پر ہو سو ہو لیکن کیا  پتیوں پر کبھی سورج کی پسینا آیا  خون پینے پہ مسر مے تھی، تو اسکو ، لیکن  تجھ جگر سا اس خونخوار کو پینا آیا؟ گو کہ پوجوں ہوں ہبل، امر و اطہر ،لات و منات  سر جھکا جائے ہے جو ذکر مدینہ آیا 

meningitis

یہ عجیب خط ہے کہ میں ہی اسے لکھ رہا ہوں اور میں ہی اسے پڑھے جاتا ہوں، تسبیح کی طرح، صبح شام۔ میں نے ضرورت سے زیادہ چشموں سے باتیں کی ہیں، قطروں کی ہنسی کو چھوا ہے، سرسراتی ہوا کی اداسی کو گھنٹوں چکھا ہے۔ میں سچ سن چکا، وہ سچ جو قبروں میں مقید مُردوں کو سنائے جاتے ہیں۔ وہ سچ جن کی تجلی زندوں کے حواسِ سامعہ کو سرمہ کر دے۔ تو پھر یہ سچ مجھے کیوں سنائے جا رہے ہیں؟ میں تو زندہ ہوں___کیا میں زندہ ہوں؟؟ میں گر رہا تھا، کالے بادلوں سے بارش کے قطروں کے ساتھ۔ میں بھی ایک قطرہ تھا،خون کا، ایک لوتھڑا، ایک جنین، بچہ دانی کی تلاش میں۔ مگر جس بچہ دانی میں مجھے جگہ ملی وہ خاردار تاروں سے گِھری تھی- جس کے باہر بندوق بردار لمبے قد اور داڑھی والے، پٹے رکھے پہرہ دار، پہرہ دے رہے تھے۔ یاداشت کے خالی رخنے تخلیق کیے جا رہے ہیں، جہاں چالیس سال بعد میں اپنی تخلیق کے بوسیدہ پنے کھودنے آوں گا۔ دل میں خدا کا وہم پرویا جا رہا تھا جہاں چالیس سال بعد خدا کی جگہ ایک شگاف ہو گا، کالے بادلوں میں گِھرا۔۔ میں زبانوں کےاس بدنصیب شہر میں پیدا ہوا جہاں چپ کا دریا بہتا تھا۔ "حقیقت وہ شام ہے جس کا ڈوبتا سو

Boda Darakht

یہ کون کٌھنڈی آری سے میرا تنا کاٹ رہا ہے کون میری وکھیوں کی ٹہنیاں توڑ رہا ہے مجھ سے نیانوں کے جھولے بنانا، یا سکول کی نِکی نِکی کرسیاں میرے ہاتھوں سے سالنوں کے ڈونگے چمچ میرے پیٹ سے سہاگ رات کے رنگلے پلنگ چل بھانوے، مجھے انگیٹھی میں ڈال دے میری آنکھیں بس میری رہن دے میں نے اپنی ماں کا رستہ تکنا ہے میں ایک بودا درخت ہوں جسے سبزا دیکھے اسی سال ہو گئے ہیں مائے وے مائے! تیرے کہن پر میں اپنی انتڑیاں پھیلائے پانی ڈھونڈتے، ہزاروں فٹ نیچے آ گیا ہوں مائے وے مائے ! یہ کدھر جنا تو نے مجھے؟ جدھر انّے دریا، پتھر ٹٹولتے رستہ بھول جائیں کوے بھوک سے اپنے موئے ساتھیوں کے ڈھانچوں کا سُکھا گوشت چابتے ہوں۔ کوئل موت کی تسبیح پڑھتی ہے مائے! مائے وے مائے ! یہ کدھر جنا تو نے مجھے؟ جدھر سانپ زہر کی دوات میں اپنی زبان ڈوب کے شعر کہتے ہوں جدھر مچھیوں کے آنسووں کا کھارا پانی یاد کرتے کشتیاں بودی ہو گئی ہوں مائے میں ان کشتیوں سے بھی زیادہ بودا ہوں ریت کے جھکڑ میں جو تیری تصویر بنتی ہے اس سے ہر روز کہتا ہوں، میں اس سال کے سوکھے میں اور نیچےنہیں کھود

zanhar

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں احمریں ہاتھ، مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون مردہ چڑیوں کے زنخداں، تانبے کی چیخیں، گرتے ہاتھی کی فغاں، (کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں) اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے سب کے سب بار دفینوں سے بہا ل

Asma Jahangir kay naam

عاصمہ جہانگیر کے نام شہسوارو وقت کے گھوڑوں سے اترو شاہ زاد ی، جسکی تند تلوار کے ڈر سے کبھی دشمن کے ہاتھی اپنی فوجوں کو کُچل دیتے تھے وہ جنگجو سپاہی خاک ہوتی ہے نِگوں سر، پر علم، اونچے اٹھاؤ دل کی دھڑکن کو طرب کی تھاپ سمجھو اور رجز گاؤ خمیدہ حوصلوں کی لاش پرپڑھ کر انھیں پھونکو ابھی جرأت کے بھالوں نے نجانے کتنی زرہوں سے گزرنا ہے اگر پیتل کی ڈھالوں کی نڈر آنکھوں کو پگلانے کا یارا شاہ زاد ی ہی کے بس میں تھا تو سن لو شاہ زادی اب نہیں ہے اب تمہاری سہمی تلواروں کو لڑنا ہے المناکی؟ خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں درد اتنا ہے کہ آھن کو نگل جائے زبیحوں کا لہو پی لے خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں درد اتنا ہے کہ راتیں نیند کی دیواریں چاٹیں گی مری ہڈیاں چبائیں گی خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں درد اتنا ہےکہ میری روح کا خیمہ اکھڑتا ہے مگر نیزوں کو نیچے کرنا تلواروں کو رکھ دینا گناہ ہے شاہزادی کی شجاعت کے علم اونچے کرو گر شاہ زادی اب نہیں ہے اس کی شمشیروں نے جینا ہے گلوں کو پھاڑ کر چیخو ابھی گھمسان کا رن ہے

Shaam

شام اک ترا خواب ہی حقیقت تھا  اور جو کچھ تھا بس حزیمت تھا  تیری آنکھوں کے کیسری بادل  میرے سینے میں ڈوبتا ہوا دل  اس قدر خامشی میں بیچ سفر  شام ہونا بڑی اذیت تھا 

Kashmiri Shawl

وہ جو دور کھڑکی پہ لٹکی ہے دھوپ سے بچنے کو کسی نے بہت چاؤ سے کشمیر کی تنگ گلیوں سے خریدی ہو گی  جانے خواہشوں کے کتنے چکور  انجان پہاڑوں سے اڑ کر اُس وادی میں آن بیٹھے ہوں گے جہاں ایک نو بیاہتا بیوہ اپنے شہید شوہر کی یاد میں لال پھول کاڑھتے کاڑھتے بوڑھی ہو گئی تھی (وہ چکور دیواروں پر کبھی نہیں بیٹھتے کیونکہ کشمیر کی دیواریں خاردار تاروں اور کانچ کے ٹکڑوں سے گوندھی گئی ہیں لے کے رہیں گے آزادی چیختے چیختے وہ بھی کبڑی ہو گئی ہیں) جیسے کھڈیوں کی لَے کو شال کے دھاگے پہچانے ہیں پیچھا کرتی جیپ کی چنگھاڑ کو  بندوق کی گرم نالی سے نکلتی دھاڑ کو اور اس آواز سے گونجتے پہاڑ کو بھی شال کے دھاگے جانتے ہیں اور اس آہ و بکا سے دور جہلم کی مٹیالی سرگوشیوں سے پرے اس شال کا تحفہ دیتے ہوئے اس نے سوچا ہو گا کہ شاید یوں یہ شال آزاد ہو جائے اس کے ریشے، جاڑے کی ٹھنڈ میں، کسی سٹریٹ لائٹ کے نیچے ایک گداز جسم کو گرمائش پہنچائیں پر وہ تو دور کھڑکی پر لٹک رہی ہے دھوپ سے پچنے کو جیسے نئی نویلی دلہن ہو اور پہلے ہی دن چپ چاپ رسوئی گھر میں چولھا جھونک رہی ہو

Kati kalai aur andhera kamra

کٹی کلائی اور اندھیرا کمرا‎ اندھیرے کمروں کے ککون میں فون کی گھنٹی بجتی رہے گی تیرے لہو کی آشوبی بارش کو شیشے توڑنا ہوں گے اس بارش میں جھلسی دھند کو پہروں چیختے رہنا ہو گا مارگلہ کا سبز سکوت ہر رات مرے بستر پر اگے گا روڑ پار بندروں کو ہمیشہ چھلیاں چوری کرنا ہونگی تیری ہنسی کو گونجنا ہو گا ! اندھیرے کمروں کے ککون میں  سانس گھٹا بیمار ذہن ہر نبود کو چاٹے گا اور مرے پپڑی سے اٹے لفظوں کو سرخی لیپنا ہوگی تیرے بچپن کی اک شیطانی کے داغ کو چومتے رہنا ہو گا اندھیرے کمروں کے ککون میں 

Khwab ka damro

ڈارون کی لاش پہ تانڈو ناچ رچانے والا بندر  پوچھ رہا تھا  نیٹشے کے یبھ کو سن کر زرتشت نے آخر بولا کیا تھا  سی ایم ایچ روڈ کی اُترائی پر ایک نیانا  ایک مروڑی تار سے سائیکل ٹائر گھمائے جاتا تھا  کار میں بیٹھا میرا ہیولا  آئنسٹائن کی ریلیٹوٹی کی گھمن گھیری پاٹتے پاٹتے ہار چکا تھا  میرے وقت اوراُس کے سمے کے بیچ یہ صد صدیوں کا بندر  سپیس ٹائم کی چادر اوڑے ناچ رہا ہے  آئنسٹائن سہی کہتا تھا  ماس انرجی دونوں ایک ہی ہیں  یہ سب ہندسوں کا چکر ہے  اگنی کے ہاتھ سے لکھے ہندسے  پھر سے نئے ذرے کی کھوج میں نٹ راجا سے نئے کَرَنڑ کا پاٹ پڑھیں گے  اور مرا بیمار ذہن پھر سو جائے گا  زینکس رات کا دیمک بن کر  میری نظمیں چاٹ رہی ہے  اور میں اک دیوار پے بیٹھا  خواب کا ڈمرو پیٹ رہا ہوں  ----------------------------------------  کَرَنڑ / करण  کرنڑ کلاسیکی ہندوستانی ناچ کے ۱۰۸ روپ ہیں جن کی تصریح ناٹیا شاسترا میں بیان کی گئی ہے- کرنڑ کے معنی کرنے کے ہیں گھمن گھیری۔ بھنور کے معنی میں استعمال ہونے والا پنجابی کا لفظ  https://en.m.wikipedia.org/wiki/Tandava  https:/

Lab khulay

لب کھلے کچھ کہیں نہیں بولے لفظ بولے ؟ نہیں ! نہیں بولے۔ کب سے خوابوں کے بل کھڑا ہوں میں  اپنی آنکھوں کی پتلیاں کھولے میری باہوں کی بےوفائی کو میرے کاندھے پہ رکھ کے سر رولے قید ہوے گی کالے پانی کی آج کاجل اتار کر رو لے رمز کیا تھا کہ راگ پورو میں راکھ گاتی ، آلاپتے شعلے پی رہی ہے شراب کی سرخی خون میرا عذاب میں گھولے کب سے یاں روشنی نہیں آئی کب سے آنکھوں کے در نہیں کھولے

Ashba e Izteraab

زندگی بھر اٹھاۓ اٹھ نہ سکا  بار سانسوں کا ، اک حباب ہی تو تھا  کاٹتا تھا بریدہ اندهیاوؤ  رات اشباحِ اضطراب ہی تو تھا  دھڑکنیں رک گئیں ، یہی کہتے  نبض کیا ہے ، عذاب ہی تو تھا  دل لگی جسم کی ضرورت تھی  عشق خانہ خراب ہی تو تھا  اپنے شعروں میں جی لئے ورنہ  یہ دوام اک سراب ہی تو تھا  گو پزاوے میں آگ بھڑکے ہے  دل کا ایندھن شراب ہی تو تھا  میں نے دیکھا تو خوں چکاں پایا  اس نے بولا گلاب ہی تو تھا

Dil jala na shab e taar

صور یا کوئی سگار      صور یا کوئی سگار، پھونک  دل جلا نہ شبِ تار، پھونک  آنکھ میں ایک وہی خبط ،اس کو  اب نکال و غبار ،پھونک  شمع ِنگہتِ یار،اس رات  میرے پر ، مرے مدار، پھونک  نار بھج رہی کہ چربیِ،خوں  خود انڈل کہ کہےیار، پھونک 

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے

khwab awar golian

خواب آور گولیاں خواب آور گولیاں ، نگلیں تو سب غم مٹ گئے  ایک غم دیدہ مصور ، جس کے کینوس پر بھرے  عقل کے،شہوت کے ، خواہش کے سبھی رنگ مٹ گئے  خواب آور گولیاں ہیں مخمسوں کی چارہ گر  خواب آور گولیاں تریاق سم ،تریاق غم  گوکہ پیروں میں ہیں بے سد مخمسے اور اضطراب  گولیوں کی قید میں ہے جاودانی کا حباب  مخمسو اٹھو ! کہ پھر سے رنگ کینوس میں پڑے  پھر مصور رتجگے اور رنگ آمیزی کرے  آرزو مندی وآہ زاری کے گھنگرو پہن کر  پھر خراساں کا وہ رومی ، رقص تبریزی کرے   

Khwab

زلفوں کے شکنجے   زلف کے نرغے میں خواب  خواب نیرنگِ سراب  اس کی جبیں پر کھدی، اس کی جوانی کی شام  بوسۂ لب ،خامشی،خواب تذبذب کا جام  صبح کی درخشندگی میں آدمی سارے نبود  خواب کے اندھیر میں مژدۂ راہِ ثبات  باغِ عدن سے تہی، خواب نویدِ بہشت  خواب اک ایسی کنش،  جس میں خداؤں کو موت ہے اور بشر کی حیات

Niyatain

کہاں کی نیت کی بات کرتے ہو؟ پاکبازوں کی نیَتوں کی ؟ مرے سرہانے تو اس طرح کی کسی بھی نیت کے بت نہیں ہیں! (ہُبل سِراپِس کے بھاری جسوں نے کب سمانا تھا میرے نطفے میں) مرے سرہانے ،تو جسم کی بھوک کا دیوتا کھڑا ہے کہاں سے ٹوٹے گا اس دیوتا کا بت کہ جس کا خمیر ماؤں کی ناڑ میں ہو لٹکتی جیبھوں میں اُسکی شہوت کےلاکھ شعلوں کا رقص بھپکوں میں اڑ چکا ہے ہزار روحوں کا ماس چوہوں کی دم کی مانند کُڑکیوں میں پھسا ہوا ہے اٹا اندھیرا، پسینہ ،بدبو خمار، جام و سبو سبھی ہیں گداز جسموں پے کاو کاو آخری ہوس نشاں تو ہیں نیتیں نہیں ہیں -------------------------------------------------- ہُبل ، سِراپِس دونوں اپنے اپنے زمانے کے گرانڈیل خدا تھے - سراپس کو عیسایئوں نے ۳۸۹ عیسوی میں اور ہُبل کو مسلمانوں نے ٦۳۰ عیسوی میں نابود کیا تھا کڑکی کا لفظ پنجابی میں چوہےدان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔بھلے شاہ کے کلام میں بھی مستعمل ہے ایسیاں لیکاں لائیاں مینوں ہور کئی گھر گالے اُپّر واروں پاویں جھاتی وتیں پھریں دو آلے لُکّن چھپّن تے چھلّ جاون ایہ تیری وڈیائی جند کُڑکی دے منہ آئی 

Jism adh dhaka hua

جسم ادھ ڈھکا ہوا جسم ادھ ڈھکا ہوا  جام ادھ پیا ہوا  خواب و خم گھلے ہوئے  نظم ادھ لکھی ہوئی  وقت کے مدار میں ، منجمد ہزار پل  تیوری چڑھی ہوئی  چیخ اک رکی ہوئی  اشک اک تھما ہوا  آنکھ رتجگی ہوئی  وقت کے مدار میں ، منجمد ہزار پل  رمز انکہے ہوئے برف کچھ جمی ہوئی  مخمصہ ، مغالطہ  چپ ہے ٹک لگی ہوئی  وقت کے مدار میں ، منجمد ہزار پل

Kalay Nihang

ڈوب گئے آب کے سبز میں کالے نہنگ  ایک ہوئے خواب کے اور حقیقت کے رنگ  پھر جی اُٹھیں خواہشیں ، جھیل کی آغوش میں  غم کے نبی دَہاڑتے ، گریہْ خاموش میں  جسم ادھ

zindaghi aik kargas

زندگی کسی کرگس کی طرح  مردہ گوشت پہ پلا کرتی ہے  خود کے پنپنے کی روش میں  یہ حسیں پچھل پیری  ہر ایک سانس، ہر اک روح ہڑپ جاتی ہے 

Domail

سرخ تھا جہلم کا جسم،سبز تھی نیلم کی روح  ہم بھی انھیں کی طرح، خاک نما ہو گئے

baydamaghi

ہو عطا ہم کو بھی ایسی بے دماغی کی کدال جس سے سینے چاک کرنے کا کھلے ہم پر فسوں ایلیا ، اقبال، راشد ،میر و غالب کا وبال کاو کاو رودِ دجلہ ، لابلا سوزِ دروں

rab

رب ہک گنجل دار بھجارت  رب ہک گورکھ دھندا کھولن لگیاں پیچ ایس دے  کافر ہو جائے بندا ہر تالے دا تالا کنجی ہر کنجی ہک تالا پر لائی لگ مومن توں میں  کھوجی کافر چنگا

Propaganda

پروپیگینڈا  مرغِ شتر سن ، کہ مہا یُدھ کا مردنگ شور سی شورش ہے ، انجام کا آرمبھ غل کا پروہت ہے کہ مغزوں پہ بپا ہے لفظ کی تخریب ہے معنی کا سا آہنگ

wafoor e dard

وفورِ درد سے پھر بھر گیا ہے جام ابھی  اتارتا ہوں حلق سے یہ اِژدہام ابھی  یوں چھیڑ سوز کا ساز اب کے کچھ سنائی نہ دے  سبق خرد کے، نہ ہی اس کی ہنسی کی جھنکار  ہیولۂ غمِ دل ، نہ ہی خواب کا پندار  نشہ ہو اس قدر اب کے کہ کچھ دکھائی نہ دے  یہ روشنی جو ابھی میکدے میں ہے میرے  لہو کے لال چراغوں سے مرتعش کرنا  مجھے´ ابھی` کے کهربا میں بند کرنے کے بعد  ہزاروں سال سمندر کی تح میں رکھ دینا  میں مل رہوں گا کسی روز ایکسکویشن میں  میرے وجود کو مایکروسکوپ پر رکھنا  ہرایک سانس کے لاشے کو کاٹ کر تکنا  مری ہنسی کی یہ شریانیں کب پھٹی ہونگی  مری نگاہ کے بطن میں یہ بوزنے کس صبح  گھسے تھے، دھاڑتے اعلان ِشام کرتے ہوئے 

Aalam -e- Barzakh

عالم برزخ کے شعلے ، زلف آہنگ کے یہ سانپ  غم کے گدلے پانیوں میں ڈوبتے خالی ورق  جیب لٹکاۓ ہوۓ حرفوں کے یہ کالے نہنگ  کب تلک تیرے مرے لاشوں کو نوچے جائیں گے  کب ردیف و قافیہ کے یہ ہزاروں عنقبوت  مجھ کو تار آگہی کے جال سے لٹکائیں گے 

majnoon

اگر مانگے دعا میرے لیے اے سارباں تو یوں  کہ مجنوں لیلی لیلی کرتے اور مجنون ہو جائے ترجمہ از شعر امیر خسرو( احتمالاً) گر اے زاہد ، دعای خیر میگوئی مرا ، این گو کہ آن آوارہ از کوی بتان آوراہ تر بادا

Teri mehek ka hayola

تری مہک کا ہیولہ، نہ تیرے لمس کی بھاپ متاعِ جاں! نہ کوئی سانس کی وحی اتری فرشتہ نبض کا آیا ہے دل کے غاروں کو فقط حروف لئے، دھڑکنوں کے الواح سے

raat

رات ابھی جمی نہیں ، درد ابھی جنا نہیں شعر سے خوں لکھا نہیں ، خون سے تو بنا نہیں رات ہو چلی صبح کا ہونا بھی ممکن تو ہے چرخ جو گھومتا جا رہا ہے ہاں مگر یہ ممکن نہیں کہ اندوہ کی تاروں کی سختی میں کمی آ جاتے گی چرخ جو گھومتاجا رہا ہے  اک رات کُلفتوں سے برابر بھری ہوئی اک خواب ہیولے سا، مجھے دیکھتا رہا  رات کے دانت گو نہیں ہوتے رات سانسوں کو چاب جاتی ہے کرب کے بے زمین مردوں کو رات خوابوں سےکھود لاتی بے صبح ۔ ۔ دل ، گولیوں کے کُہرے میں ہاتھ پر خوں سے رات لکھتا رہا رات۔ ۔ رضی عدم کے پہلو میں راکھ جنتا تھا خاک لکھتا رہا موت کے رخنوں میں بھرتا ہوں میں سانسوں کا کہر کوکھ میں اس رات کی خوں تھوکتے ہیں ہست و بود رینگتی ہیں چونٹیاں، خون چوستی ہے جونک ناڑ سے جو رات کی دھڑکنیں گزرتی ہیں تیرے بغیر مری نیند کے صفحوں پر خالی قلم سے خاموش نظمیں لکھی گئی ہیں نب میری کھال کی پپڑیاں اتارتی ہے جیسے اکھڑتے پینٹ سے لیپی دیواریں کمرے میں ایک خاص سڑانھد ، بھر دیتی ہے  میرے خوابوں کے سیم زدہ کمرے بھی ایسی ہی بدبو دار ہیجان سے بھرے ہیں۔ رات پھر

blood pressure

آه جکڑے ہے رگِ جاں کو یا کیڑوں کا ہجوم ،ریشہ ریشہ بنُے، ریشم کے رسن طوق کیے ؟  پھر سے دُزدانِ ابد، بحرِ فنا کے قزاق  میری راتوں میں تلاطم کے پیالے تھامے  سینے پیٹیں ہیں ، لہو روئے ہیں ، بتیاتے ہیں  سچ کی آغوش ،اے خرموش ، پرتگاه ِعمیق  سچ کی آغوش وہ بے پایاں لحد ہے جس میں  رمزِ ہستی کے کئی لاکھ چھچھوندر مدفون"  ! بام فردوس سے کودیں گے حشیشین ابھی  ! منہ میں دابے ہوئے طوماروں پہ پیغامِ خدا  برہنہ حرف معانی کے لبادے اوڑے  اک گرانڈیل سے سائے کی طرح رقصاں ہیں  آتشِ عقل کے، الحاد کے گرد  اک پریزاد کے گرد ۔۔۔