Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2021

معدومیت کا مکالمہ

میں : گوشت میں لتھڑی ہوئی اس قوم کے حیلوں ، بہانوں سا ہے یہ گرداب ، کہ جس میں ہم اور تم فنا ہونے کو ہیں یا فنا ہو بھی چکے ؟ وہ : فنا ہو رہے ہیں (سرگوشی) تم : مگر جو قمقمیں جلتی ہیں بھجتی ہیں ، یہ آرزوئیں ہی تو ہیں امیدیں ہیں صبح نو کی میں : امیدیں ، آرزوئیں ، خواب! ہاہ !! ایک اور حیلہ بہانہ ہم جل رہے ہیں ! سنا تم نے ؟ ہم جل رہے ہیں یہ قمقمیں نہیں ہیں .. میری تمہاری وردیاں ہیں سونگھو !! تمہیں پکتے گوشت کی بدبو نہیں آتی یہ ہمارا ہے ! میرا تمہارا گوشت سونگھو!! تم : مجھے نزلہ ہے چند دن سے ، کسی بدبو کی خوشبو کی رسائی ممکن نہیں مجھے تک مگر میں دیکھ سکتا ہوں میں : تو دیکھو نا !!! یہ سر کٹے بچوں کے ریلے یہ نیلی موچھیں یہ بغلوں میں،مسانوں پے بال یہی دیکھ کر تو انہوں نے کہا تھا ، یہ بچے نہیں ہیں یہی دیکھ کر ، انہوں نے اپنے ایمانِ محکم کو اور پختہ کیا تھا تم : ہاں ، انہوں نے کہا تھا یہ بچے نہیں ہیں میں : تو کیوں امیدوں کی رجا، کی بات کرتے ہو ابھی خون ابلے گا ، درد دھواں بن کر اس آشفتہ سر سے نکلے گا تو سنو گے ؟ تم : میں سن تو رہا ہوں میں : مجھے مت سنو ! یہ چیخیں سنو !! تم : یہ مدھم سی چیخیں ؟ میں

رینٹ

کلچر تیری ۔۔۔ (انسان ایک سوشل اینیمل ہے) بس کرو! (تمہارا جین خود غرض ہے) بس کرو! (تنہائی کے اس ہاویہ سے ڈرو جس کا ایندھن صرف انسانوں کے دل ہیں پتھر نہیں ) بس کرو! فلسفے بگھارتے، فروعی بکواس کرتے کب تک گزرے گی ۔۔۔ ؟ بک بک بک بک بس کرو! اس کلچر کی لسی رڑکتے رہو ہر بار سمیولیٹ کرو، یوں کرنا ٹھیک ہے یا یوں میں یہاں اِن جیسا ہو جاؤں؟ اور اب واپس پاکستان جاؤں تو اُن جیسا ہو جاؤں؟ (وہ ہو پائے گی اُن جیسا؟ لبرل عورتیں قدامت پسندی کی پوشاک نہیں پہنا کرتیں پہن لے تو کیا ہرج ہے؟ میرے زخمی میل شاونسٹ بندر کو ملہم لگا دے بس پر کیوں کرے وہ ایسا نہیں کر پائے گی) بک بک بک بک بس کرو میں خود کون ہوں؟ شاید ایک بندر ہی ہوں جو دو ایتھوس کا بنا، رنگ برنگا، پیوند لگا پیراہن پہن کر نہ ادھر کا ہے نہ ادھر کا (بندر ہوتا ہے یا کتا؟) (میں) کوئی درمیان کی چیز ۔۔۔ مجھے زنخوں پر بہت پیار آ رہا ہے جو میری طرح دو شناختوں کے درمیان ناچ رہے ہیں میں تو فقط ہونا چاہتا تھا، نہ ایسا نہ ویسا فقط ہونا چاہتا ہوں! ایک آشوب جہاں ، یا ہنگامہ قیامت کا شاید دھڑکنیں ہوں میری یا میرا کوئی نیا فتور یا فقط شور سیمیولیٹڈ شور بس کرو!

تمہیں کیسے بتاؤں

  تمہیں کیسے بتاؤں کہ میں ایک بھولی ہوئی وادی کے گمنام شہر کا بچہ تھا وہ دھول، جو اس کے پہاڑوں پر اڑا کرتی تھی ہر سال مون سون کے آنسوؤں میں اپنا دامن تر کیے گھاس پر تھک کر بیٹھ جاتی تھی میرے دل پر جمی ہے تمہیں کیسے بتاؤں کہ مجھ میں اور چند بچوں کی گرفت سے نکلے ٹوٹی پکھڈنڈیوں کی ڈھلوانوں سے لڑھکتے پرانے ٹائروں میں کوئی فرق نہیں ہماری قسمت میں دریاؤں کے غوغوں میں گر کر کھو جانا بہت پہلے لکھ دیا گیا تھا تمہیں کیسے بتاؤں کہ میرے شہر کی مائیں خاکستروں کی آخری چنگاری کو زندہ کرتے کرتے خود راکھ میں بکھرنے لگتی تھیں اور میں ان ماؤں کا آخری وارث اس خاکستر کی آگ کو چھوڑ کر تمہارے پہلو میں بیٹھا ہوں تمہیں کیسے بتاؤں کہ آج میں زندہ رہنا، تمہارے ساتھ سب بھلا کر رقص کرنا میرے بس میں نہیں ہے تمہیں کیسے بتاؤں کہ پرتگال کی اس  فادو  سنگر کی آہ و زاری میں مجھے اپنی موت کا مرثیہ کیوں سنائی دیتا ہے

سمندر خالی ہو گئے؟

  سمندر خالی ہو گئے؟ اور زمینں بنجر؟ سورج کی کرنیں چمکنا بھول بیٹھیں ہیں اور چڑیاں ہسنا؟ میری یادداشت کی دنیا میں میرے ساتھ فقط ایک نیل کنٹھ ہے اور کھڑکی سے باغ دکھتا ہے ہم اس جیل کی زلال دیواروں کو ٹکریں مارتے مارتے تھک گئے ہیں ہم فقط تمہارے چہرے کو دیکھ کر وقت بتا سکتے تھے تم کہاں چلی گئیں؟ کیا رات ہو گئی ہے یا ہم اندھے ہو گئے ہیں

جانتی ہو

  جانتی ہو، نظمیں لکھ لینے سے دل کی سیاہی نہیں دھلتی اس ابلتے کھارے پانی میں حافظے کی جھاگ نہیں گھلتی پھر بھی یہ آخری قطرۂ جاں دل کی سپی میں سنبھالے سورج کو ڈوبتے دیکھ رہا ہوں شاید تمھارے جانے کا سن کر ، آج رات بھی کوئی سمندر بین کرتا مجھ میں سمانے آ جائے

یہ پہلی بار نہیں

  یہ پہلی بار نہیں کہ کسی نے محبتوں کا اترن سمجھ کر سیب کے مربے کی خالی بوتلیں چمڑے کا ٹوٹا دست بند چیڑ کے مخروطے اور بجھے سگریٹ سنبھال رکھے ہوں اس زمین کی خاک میں نہ جانے کتنی آنکھیں دفن ہیں جو عمیق سمندروں کے نمکین پانی سے گھری ہوئی ہیں

اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی

  اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو تم عام سی لڑکی نہیں رہو گی میری سطریں سمندروں میں کود کر تمہارے ناف پیالے کے لئے زمرد کے ٹھنڈے پتھر جمع کریں گی اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو شہد کی مکھیاں تمھارے پستان چومنے کی لو میں گلابوں کے لوبھ سے آزاد ہو جائیں گی اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو تمھارے چہرے کی روشنی سے عدم کے تاریک قریوں میں رنگین کمانوں سے خوابوں کے بان چلائے جائیں گے اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو پیڑوں کی انگلیاں تمہاری آمد کی خوشی میں ہوا کی تاروں سے سُر نکالتے خود کو زخمی کر لیں گی اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو تمہاری کمر کے تیغے پر لب اپنا آپ رکھ کر خون کی پھواروں میں زندگی تلاش کریں گے اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو تمہارے کولہے کا تل تمثیل کی کان بن جائے گا غم جس کی یاد میں نئے استعارے کھودنے وہاں آیا کرے گا اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو تمھارے کاکل کے مردہ سانپ جنگ میں لڑتے مجھ مردہ سپاہی کی جیب سے ملیں گے

تمہارا سایہ

تمہارا سایہ ابھی بھی ٹیبل کے اس پار مجھے گھور رہا ہے واپس آ جاؤ آؤ گیلی ریت پر لیٹ جائیں گے آؤ کچھوؤں کی پشت پر سمندر کی تہ میں موتی ڈھونڈیں گے وہ سپی کہاں رکھ دی تم نے جس کی قید میں ایک آنسو نے اس سمندر کا سپنا دیکھا تھا آؤ ہم پھر سے اسے ڈھونڈتے ہیں واپس آ جاؤ میں نے گھر کی ساری مکڑیاں مار دی ہیں ان کے جالے ہٹا دیے ہیں میں اب ان سے طلسمی کہانیاں نہیں سنتا نیم شب میں ان سے باتیں نہیں کرتا واپس آ جاؤ ہر شام آنسوؤں کی ایک کتاب لکھنے کا سوچتا ہوں رات کے آخری پہر تک اسے لکھتا ہوں پر صبح اٹھ کر دیکھتا ہوں تو اس کے صفحوں پر سمندری نمک کے علاؤہ کچھ نہیں پاتا میرے لفظ مٹ رہے ہیں واپس آ جاؤ چادریں صاف ہیں اور فرش چمکتے ہیں تمہاری پسندیدہ چاکلیٹ فرج میں لا رکھی ہے اور یہ بکھری کتابیں جن سے تم ہمیشہ چڑتی تھیں سب جلا دی ہیں یہ بک بک کرتے فلسفے اور میری زبان سے نکلتی قنوطی بکواس زبان کاٹ دوں؟ واپس آ جاؤ وہ بستر جہاں ہم دونوں لخت لیٹا کرتے تھے میری چتا ہے آؤ اسے جلتا دیکھو کیا اس آگ کو ہمیشہ جلنا ہے خامیاں، خرابیاں، بحثیں، سوال سوال در سوال وہ سب تو ابھی تک یہیں ہیں ناچتے ہیں میں بھی ناچ رہا ہوں میں

اٹھ سونڑئیے

    اٹھ سونڑئیے ، جگ جا ہِک ہور تری جئی چلہی سونڈی کچے کہڑ کھڑے تے بہ گئی اے دس انہوں کے چلہیے دنیا کچا کہڑ کھڑا   ، تیرا مہیوال تناں ہی ہرجائی نے ہرنا، ترنا ہیک برابر مڑ جا سونڑیے مڑ جا