Skip to main content

جھوٹ



ضیاء الحق کی بڑی  سی تصویر نیلم دریا کے کنارے چلتی جا رہی ہے، اسطرح کہ خود اُسکی ننھی سی ٹانگیں نکل آئی ہوں۔ کشمیر لبریشن فرنٹ کے نعرے " کشمیر بنے گا خودمختار" سی ایم ایچ کی دیوار پر لکھے ہیں، جنھیں جنرل ضیاء کی تصویر بڑی نفرت کی نگاہ سے گھور رہی ہے۔
 " کشمیر بنے گا ۔۔۔"
 تصویر نے یوں نعرا لگایا جیسے اس کے گرد ایک جمِ غفیر ہو جو ببانگ دہل، جوابا نعرا لگا رہا ہو 
" پاکستان"۔

افغن ٹی ہاوس کے بھدے سبز پینٹ کی پپڑیاں بس اکھڑنے کو ہیں، دیوار کے عین وسط میں یاسر عرافات کی تصویر  آویزاں ہے۔ اسد  اپنے باپ کی طرف دیکھتا ہے اور اسکا اشارہ ملتے ہی ہتھوڑی اور میخ اٹھا کر دیوار کی طرف بڑھتا ہے۔ چند منٹوں بعد ہی اب افغن ٹی ہاوس میں یاسر عرافات اور جنرل ضیاء دونوں ٹنگے ہیں۔ ٹی ہاوس کے ہر گاہک کو پتا ہے کہ یہودیوں اور لادینی روسیوں کو سروناش کرنے والے دو وردی پوش مجاہد افغن ٹی ہاوس میں رہتے ہیں۔

اسد تصویر لٹکاتے ہی فورا اس ڈبے کی طرف دوڑتا ہے جس میں رومی کی پُتلی ادھ موئی پڑی ہے۔

 اسد کے ہاتھوں میں آتے ہی رومی کی مردہ پتلی میں جان پھونک دی جاتی۔ گھومتی ہوئی اس رقص کناں پتلی میں شمس تبریزی کی گرو دکشنا کا گیان بانٹ ہوتا۔
در دو چشم من نشین ای آن که از من منتری
 تا قمر را وانمایم کز قمر روشنتری

ہر شعر ،ہر استعارہ ، ہر تلمیح اس پتلی کے گرد رقص کرتے۔  
پر ایک چپت کی دیر تھی کہ سب استعارے و تلمیحات اپر اڈے کی دھول میں ڈھیر ہو گئے۔

" کام نہیں کرنا؟ کتنا کام پڑا ہے"

اسد اپنے باپ کے اس اچانک غصے سے بوکھلا گیا اور بھیں بھیں کر کے رونے لگا۔ اتنا رویا ، اتنا رویا کہ نیلم دریا میں سیلاب آ گیا۔

یہ ۹ ستمبر ۱۹۹۲ کی بات ہے جب بارش کے گہرے بادل خلیج بنگال سے یہ ٹھان کے نکلے تھے کہ مظفرآباد  میں بیٹھے اسد اور اس کے باپ کو برباد کر دیں گے۔ بارش کا زور تھا کہ ٹوٹتا ہی نہ تھا۔ اسد نے بادلوں کو کئی بار تھم جانے کو کہا جو ہمیشہ اس کے کہنے پر رک جایا کرتے تھے، لیکن اب کے وہ تھمنے کے نہ تھے۔ ایک سیلِ سیال تھا اور محکمہ جنگلات کی جی حضوری کرتے سارے درختوں کی گیلیاں نیلم پل کے نیچے سے گزر رہی تھیں۔ بڑے بڑے شیھ جوان، جنھیں اپنی طاقت پر ناز تھا اس سیلاب کی لہروں سے بھڑ گئے۔ پر سیلاب نے ان شیھ جوانوں کے گھمنڈ کو ایک آن میں نوچ کھایا۔ اسد نے دیکھا کہ ایک نوجوان نے ایک گیلی پر چھلانگ لگائی، وہ گیلی نہیں تھی اس نوجوان کے خانوادے کی بھوک کا علاج تھی، ان کی خوشیوں کی نوید تھی، اس نوجوان کے ہاتھ میں رسی تھی جب کہ دوسری سرا لئے اس کا دوست منتظر تھا کہ گیلی کے گرد رسی لپٹتے ہی وہ اس رسی کو یوں کھینچے گا کہ  اس کا دوست اور گیلی دونوں واپس آ جائیں گے، پر جب سیلاب کی لہروں کے بازوؤں سے زور آزمائی ہوئی تو نہ گیلی ہاتھ لگی نہ دوست واپس آیا۔ پانچ سالہ اسد نے دیکھا کہ اس سیلاب میں مردہ جانوروں کی لاشیں تیر رہی تھیں۔ اسد نے ایک لنگور کو  اپنی زندگی کی آخری جست لگاتے ہوئے دیکھا، جن ڈالیوں سے وہ لٹکا کرتا تھا آج وہ ڈالیاں بھی ہار مان بیٹھی تھیں۔ نیلم دریا کے کنارے بنے نیلم پارک کے جھولے جہاں وہ پہروں کھیلا کرتا تھا نیست و نابود ہو چکے تھے۔  اسد نے سوچا کہ پُتلیوں کی طرح اس سیلاب کو بھی رسیاں ڈالی جا سکتی ہوں گی۔ یہ سوچتے ہی اسے رومی کا خیال آیا اور وہ گھر کی طرف دوڑا۔




Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

zanhar

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں احمریں ہاتھ، مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون مردہ چڑیوں کے زنخداں، تانبے کی چیخیں، گرتے ہاتھی کی فغاں، (کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں) اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے سب کے سب بار دفینوں سے بہا ل...

تمہارا سایہ

تمہارا سایہ ابھی بھی ٹیبل کے اس پار مجھے گھور رہا ہے واپس آ جاؤ آؤ گیلی ریت پر لیٹ جائیں گے آؤ کچھوؤں کی پشت پر سمندر کی تہ میں موتی ڈھونڈیں گے وہ سپی کہاں رکھ دی تم نے جس کی قید میں ایک آنسو نے اس سمندر کا سپنا دیکھا تھا آؤ ہم پھر سے اسے ڈھونڈتے ہیں واپس آ جاؤ میں نے گھر کی ساری مکڑیاں مار دی ہیں ان کے جالے ہٹا دیے ہیں میں اب ان سے طلسمی کہانیاں نہیں سنتا نیم شب میں ان سے باتیں نہیں کرتا واپس آ جاؤ ہر شام آنسوؤں کی ایک کتاب لکھنے کا سوچتا ہوں رات کے آخری پہر تک اسے لکھتا ہوں پر صبح اٹھ کر دیکھتا ہوں تو اس کے صفحوں پر سمندری نمک کے علاؤہ کچھ نہیں پاتا میرے لفظ مٹ رہے ہیں واپس آ جاؤ چادریں صاف ہیں اور فرش چمکتے ہیں تمہاری پسندیدہ چاکلیٹ فرج میں لا رکھی ہے اور یہ بکھری کتابیں جن سے تم ہمیشہ چڑتی تھیں سب جلا دی ہیں یہ بک بک کرتے فلسفے اور میری زبان سے نکلتی قنوطی بکواس زبان کاٹ دوں؟ واپس آ جاؤ وہ بستر جہاں ہم دونوں لخت لیٹا کرتے تھے میری چتا ہے آؤ اسے جلتا دیکھو کیا اس آگ کو ہمیشہ جلنا ہے خامیاں، خرابیاں، بحثیں، سوال سوال در سوال وہ سب تو ابھی تک یہیں ہیں ناچتے ہیں میں بھی ناچ رہا ہوں میں...