سلمان تین سال کی عمر میں سائیں سہیلی سرکار کے میلے پر نقلی سفید داڑھی پہن کر کتنا خوش تھا۔ ست ربٹیا گیند ہوا میں اچھالتے اس نے کب سوچا ہو گا کہ 12 سال بعد وہ ایک چارپائی سے بندھا اس شام کو یاد کر کے رو رہا ہوگا۔ سلمان کے باپ کو مرے پانچ سال ہو چکے تھے۔ زلزلے میں اس اکیلے کا خاندان غارت نہ ہوا تھا، نجانے کتنے خاندانوں کی دنیا الٹ پُلٹ گئی تھی۔ پہ دنیا کہ ہے ہی دُھند کا پسارا، سو چند لمحوں میں سب برباد ہوا۔ سلمان کے باپ کو، جو کسی ڈاکٹر کے ہاں کمپوڈر کا کام کر کے اچھے پیسے کما لیتا تھا، زلزلہ نگل گیا اور یوں سلمان یتیم ہو گیا۔ ماں اور بہن کو کون پالتا سو سلمان 12 سال کی عمر سے نوکری پر جانے لگا۔ مظفرآباد کے گھر گھر جا کر صاف صفائی ، کھانا پکانا، استری جیسے گھر کے چھوٹے چھوٹےسارے کام کرتا۔ چکن کڑھائی تو ایسی کھڑی کھڑی بناتا کہ لوگ کبھی انگلیاں چاٹتے کبھی انگلیاں کاٹتے۔ سلمان جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا اس کے سبھاؤ میں زنخوں والی مٹک چٹک آنے لگی تھی۔ ہاتھ تھے کہ ہوا میں لہکتی ڈاریں، کمر تھی کہ مور کی مانند غمزہ دکھاتی۔ اسے اپنا آپ باقیوں سے مختلف محسوس ہوتا۔...
میں کافی عرصے سے چاہ رہا تھا کہ لالٹین پر فکشن میں افسانہ اور ناول کے علاوہ سکرپٹ بھی چھپیں کیونکہ ٹی وی پر نشر کیے گیے ڈراموں کے سکرپٹس کا ملنا اتنا آساان نہین ہے سو میں نے رقیب سے نامی پاکستانی ڈرامے کو وڈیو سے سکرپٹ میں بدلہ ہے۔ اس کا مقصد خود سکرپٹ رائیٹنگ سیکھنا ہے۔ بی گل کا لکھا ہوا یہ ڈرامہ کسی فلم کی مانند لکھا ہوا ہے جہاں متن اور ذیلی متن میں چھپےگنجلک کرداروں کے تانے بانوں کو بی گل نے بڑے زیرک انداز میں آہستہ آہستہ کھولا ہے ۔ امید کرتا ہوں جو لوگ سکرپٹ رائیٹنگ پڑھنا چاہتے ہونگے اس سے مستفید ہونگے۔ بی گل : اگر آپ کو میری یہ حرکت ناگوار گزرے تو مطلع کر دیجیے گا اور ہم یہ سکرپٹ وبسائٹ سے ہٹا دیں گے۔بہرکیف اس سکرپٹ کو میری طرف سے ایک ٹریبوٹ سمجھا جائے۔ اس گزارش کے ساتھ کہ اگر آپ اپنے سکرپٹ کا متن شیئر کرنا چاہیں تو اسے بخوشی شائع کیا جائے گا۔ سین ا ۔ ڈیوڑھی ۔ بیرون. رات مقصود 55 ، مچھر دانی میں لیٹا ہے کہ دروازہ پر دستک ہوتی ہے۔ مقصود اٹھ کر ڈیوڑھی سے ہوتا ہوا دروازہ تک آتا ہے اور دروازہ کا کواڑ کھولتا ہے۔ سین ۲ ۔ گلی ۔ بیرون۔ رات سکینہ 45، جس کے چہرے پر نیل کا نشان ہے جو ...