Skip to main content

رقیب سے ، قسط اول، سکرپٹ

میں کافی عرصے سے چاہ رہا تھا کہ لالٹین پر فکشن میں افسانہ اور ناول کے علاوہ سکرپٹ بھی چھپیں کیونکہ ٹی وی پر نشر کیے گیے ڈراموں کے سکرپٹس کا ملنا اتنا آساان نہین ہے سو میں نے رقیب سے نامی پاکستانی ڈرامے کو وڈیو سے سکرپٹ میں بدلہ ہے۔ اس کا مقصد خود سکرپٹ رائیٹنگ سیکھنا ہے۔ بی گل کا لکھا ہوا یہ ڈرامہ کسی فلم کی مانند لکھا ہوا ہے جہاں متن اور ذیلی متن میں چھپےگنجلک کرداروں کے تانے بانوں کو بی گل نے بڑے زیرک انداز میں آہستہ آہستہ کھولا ہے ۔ امید کرتا ہوں جو لوگ سکرپٹ رائیٹنگ پڑھنا چاہتے ہونگے اس سے مستفید ہونگے۔

بی گل : اگر آپ کو میری یہ حرکت ناگوار گزرے تو مطلع کر دیجیے گا اور ہم یہ سکرپٹ وبسائٹ سے ہٹا دیں گے۔بہرکیف اس سکرپٹ کو میری طرف سے ایک ٹریبوٹ سمجھا جائے۔ اس گزارش کے ساتھ کہ اگر آپ اپنے سکرپٹ کا متن شیئر کرنا چاہیں تو اسے بخوشی شائع کیا جائے گا۔

سین ا ۔
ڈیوڑھی ۔ بیرون. رات

مقصود 55 ، مچھر دانی میں لیٹا ہے کہ دروازہ پر دستک ہوتی ہے۔ مقصود اٹھ کر ڈیوڑھی سے ہوتا ہوا دروازہ تک آتا ہے اور دروازہ کا کواڑ کھولتا ہے۔

سین ۲ ۔
گلی ۔ بیرون۔ رات
سکینہ 45، جس کے چہرے پر نیل کا نشان ہے جو اس نے دوپٹے سے چھپا رکھا ہے، اپنی بیٹی امیرا ۲۰ ، جو سایہ میں کھڑی ہے، کے ساتھ دروازے پر منتظر ہے۔
مقصود: کون ؟
سکینہ : پہچانا نہیں مقصود صاحب
مقصود : کون ؟
سکینہ : میں ہوں ۔۔۔ سکینہ
سکینہ کا نام سنتے ہی مقصود رخ باختہ ہو جاتا ہے۔ اور دروازہ کے سامنے سے ہٹ کر یوں کھڑا ہو جاتا ہے کہ جیسے ان کو اندر آنے کی دعوت دے رہا ہو۔
سکینہ : اُدھر کیا کر رہی ہے امیرا؟ سلام کر مقصود صاحب کو۔
مقصود سر جھکائے کھڑا ہے جب کہ امیرا اور سکینہ اندر داخل ہوتے ہیں۔

سین ۳ .
ڈیوڑھی۔ بیرون ۔ رات

امیرا مونگ پھلی کا دانہ پھکتے غور سے مقصود کو دیکھتی ہے اور فقط سر کی جنبش سے مقصود کو سلام کرتی ہے۔ مقصود دروازہ کے کواڑ بند کرنے سے پہلے ایک نظر گلی میں ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کرتا ہے کہ کسی نے انہیں اندر آتے دیکھ تو نہیں لیا۔ اور دروازہ بند کر دیتا ہے۔ وہ ڈیوڑھی سے ہوتا گھر کی طرف واپس رخ کرتا ہے تو اس کے چہرے پر تذبذب صاف ظاہر ہے۔


سین۴۔
بیٹھک۔ اندرون۔رات

دھیمی روشنی میں سکینہ اور امیرا صوفے پر بیٹھے ہیں۔ امیرا ابھی تک مونگ پھلی پھک رہی ہے جب کہ سکینہ حواس باختہ ہے۔ امیرا صوفے سے اٹھ کر بیٹھک میں پڑی چیزوں کا جائزہ لیتی ہے۔ ٹیبل پر پڑے ریڈیو کے بٹن اٹکل کرتے دباتی ہے۔
سکینہ : امیرا!
امیرا اٹکل پچو کرنے میں مگن ہے اور سکینہ کی صدا پر کان نہیں دھرتی۔
سکینہ : امیرا! تیرے ہاتھوں کی کھجلی نہیں جاتی، ادھر آ۔
امیرا کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ ریڈیو کے ساتھ پڑے شیشہ کے جگ سے پانی انڈیل کر گلاس میں بھرتی ہے تو سکینہ اٹھ کر اسے زبردستی صوفے پر بٹھا کر خود بیٹھ رہتی ہے۔
امیرا گلاس ایک ہی گھونٹ میں غٹک جاتی ہے۔


سین ۵ ۔
کچن ۔ اندرون ۔ رات

مقصود چولہے پر پتیلی چڑھائے آگ بالتا ہے تو مقصود کی بیوی ہاجرہ 45، رات کے کپڑوں میں کچن میں داخل ہوتی ہے.
ہاجرہ : کیا ہوا جی، قہوہ بنانا ہے ؟ گیس ہو گئی ہو گی ۔ کیوں کھائی چنے کی دال؟ اب کیسے ہو گی ہضم؟
مقصود: ساری ماچس سیلی ہے۔ آگ ہی نہیں ہے اس میں۔
سکینہ مقصود سے ماچس کی ڈبیہ لیتے ہوئے چڑاتے ہوئے کہتی ہے
ہاجرہ : آپ میں آگ نہیں ہے جی۔
ماچس نکالتے ہی پہلی رگڑ پر ہی آگ جل جاتی ہے۔ وہ گیس کھول کر پتیلی کے نیچے آگ لگا دیتی ہے۔
ہاجرہ: دیکھا آپ نے کیسے شعلے نکلتے ہیں عورت کے پوروں میں سے۔۔۔ یہ پورے محلے کے لئے بنے گا کیا قہوا۔ پتیلی بھر کے کیوں چڑھا دی آپ نے؟
یہ کہتے کہتے ہاجرہ پانی گرانے کے لیے پتیلی چولہے سے ہٹاتی ہے۔ تو فوراً مقصود گوشزد کرتا ہے
مقصود : چائے بنا دو مہمان آئے ہیں
ہاجرہ: مہمان ؟ اس وقت ؟ ( حیرانی سے)
مقصود : ہاں تین کپ بنا دینا میں بھی پی لوں گا
ہاجرہ یہ جانتے ہوئے کہ پانی پھر بھی تین لوگوں کے لئے زیادہ ہے تھوڑا سا پانی گرا کر پتیلی واپس چولہے پر رکھ دیتی ہے۔


سین ۶ ۔
بیٹھک۔ اندرون۔ رات

امیرا ابھی تک چھیڑا چھاڑی سے باز نہیں آئی۔ اب میز پر رکھی ایک بظاہر مہنگی چینی کی مٹی سے بنی چینک کو اٹھا کر اس سے چائے گرانے کا جھوٹ موٹ ڈھونگ کرتی ہے۔ پھر ٹیبل پر رکھی آرائشی چیزوں سے کھیلتی ہے۔
سکینہ : چھڈ دے! ۔ ۔ ۔ نا چھیڑ
مقصود اس دوران دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آتا ہے۔ سکینہ اور امیرا پر نظر ڈالے بغیر بیگ زمین پر رکھتا ہے۔
سکینہ : شکریہ
واپس جاتے جاتے رکتا ہے
مقصود : (بغیر نظر ڈالے) ہاں وہ غسل خانے میں گرم پانی آتا ہے پر تھوڑا وقت لیتا ہے۔ کچھ اور چاہیے ہو تو بتا دینا۔
سکینہ : سب ٹھیک ہے
مقصود یہ سن کر واپس چلا جاتا ہے۔ امیرا لڑکھڑاتی ہے اور میز۔پر پڑے ایک شیشے کہ مرتبان کو گرا دیتی ہے۔ قریب تھا کہ وہ ٹوٹ جاتا پر ایسا نہیں ہوتا۔
سکینہ : کیا کرتی ہے؟ ذلیل کرا ہر جگہ!
امیرا کے چہرے پر مبهم سی شرمندگی موجود ہے۔

سین ۷ :

ڈیوڑھی ۔ بیرون. رات
ہاجرہ کنکھیوں سے نیم وا دروازے کے کواڑوں سے جھانکتے جھانکتے پیچھے کی طرف چل رہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ لڑکھڑاتے مجبوراً صوفے پر گر بیٹھتی ہے۔
مقصود کے برآمددے میں آنے کی آہٹ سن کر ہاجرہ مقصود کے لئے چائے ڈالنا شروع کر دیتی ہے ۔
ہاجرہ :یہ لڑکی نے چائے پی ہی نہیں جی
مقصود :ھم ۔۔۔
مقصود پریشان نظر آ رہا ہے۔ بستر پر بیٹھتا ہے۔
ہاجرہ: کل سے اندر ہی سویا کریں گے۔ اوس پڑنے لگی ہے نا۔ آپ کو نزلہ ہو جائے گا۔ اور پھر وہ سارا نزلہ ہم پر گرے گا۔ ( توقف کے بعد ) سکینہ ہے نا؟
مقصود قدرے شرمندگی سے ہاں میں سر ہلاتا ہے۔
سکینہ : ایسے ہی تو ماچس سیلی نہیں ہو گئی تھی، ہاتھ کے پسینے سے۔
مقصود اپنے ہاتھ کھول کر ان کی نمی کو دیکھتا ہے اور اپنے کپڑوں سے انھیں خشک کرتا ہے۔
ہاجرہ مسکراتے ڈیوڑھی پر مقصود کو اکیلا چھوڑ کر اپنے کمرے کو چل دیتی ہے۔

سین ۸ :
اتاقِ خواب( انشاء اور ہاجرہ کا کمرہ) ۔ اندرون ۔ رات


انشاء 25 بستر پر لیٹی نیم خواب ہے۔ ہاجرہ کمرے میں داخل ہوتی ہے۔
انشاء : ( نیند کے خمار میں) کون آیا تھا؟
ہاجرہ: مہمان ہیں
انشاء: کون مہمان۔( توقف کے بعد) یہ کون سا وقت ہے کسی کے گھر آنے کا۔
ہاجرہ اسی رضائی میں، جسے انشاء اوڑے لیٹی ہے، گھس کر ، انشاء کے بغل میں دراز ہو جاتی ہے۔
ہاجرہ: مہمان کا نہ کوئی نام ہوتا ہے نہ کوئی آنے کا وقت انشاء۔
انشاء : پھر بھی کون ہیں؟
ہاجرہ: ( کروٹ بدلتے ہوئے) ہائے سو جاؤ بھئی انشاء۔ سکینہ اور اس کی لڑکی آئے ہیں۔
یہ سنتے ہی انشاء پر بجلی سی گرتی ہے اور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔
انشاء: کیا؟ کون آئے ہیں ؟
ہاجرہ : ( آنکھیں بند کیے) لڑکی نے تو چائے بھی لینے سے انکار کر دیا۔ کھانا بھی نہیں کھایا اس نے۔
انشاء دمبخود ہے۔


سین ۹:

مقصود کا کمرہ۔ اندرون ۔صبح


مقصود کے نہانے کی آواز پس منظر میں آ رہی ہے. وہ شاور استعمال کر رہا ہے جب ہاجرہ کمرے میں مقصود کے استری ہوئے کپڑے لئے داخل ہوتی ہے۔ ہاجرہ انھیں بستر پر رکھ کر دراز سے جرابیں نکالتی ہے ساتھ ہی مقصود کا بیگ اٹھا کر بستر کے ساتھ ٹکاتی ہے۔ جرابیں ہاتھ میں پکڑے غسل خانے کے بند دروازے سے ہی گویا ہوتی ہے۔
ہاجرہ : پانی تھوڑا کم کھولیے جی۔ گھر میں مہمان بھی ہیں نا۔
کوئی جواب نہیں آتا پر ایک لحظے بعد ہی شاور بند ہو جاتا ہے۔ ہاجرہ شاور بند ہونے کی آواز سن کر مسکراتی ہے کہ اس کی بات کی کچھ وقعت ہے مقصود کی نظر میں۔

سین ۱۰ :
باورچی خانہ ۔ اندرون ۔ صبح

انشاء باورچی خانے کے سلیب پر بیٹھی اپنے سینڈوچ کے اواخر چبا رہی ہے جب کہ ہاجرہ ناشتہ تیار کرنے میں لگی ہے۔
انشاء: یہ یہاں کیوں آ گئی ہیں ؟
ہاجرہ: پتا نہیں
انشاء : آپ نے پوچھا بھی نہیں
ہاجرہ انڈے نکال کر چولہے کے پاس رکھتی ہے
ہاجرہ : ارے تھکی ہاری، بے حال، بیچ رات میں یہاں پہنچیں۔ میں ان سے پوچھتی کیوں آئی ہو؟
ہاجرہ آملیٹ کے لئے انڈے کولی میں توڑ کر ڈالتی ہے۔
انشاء : میرا بالکل دل نہیں چاہ رہا ہوسپٹل جانے کا ۔ پتا نہیں کیا ہو گا میرے پیچھے۔ چھٹی کر لوں؟
ہاجرہ : خوامخواہ چھٹی کرو گی۔ ابو تمھارے ناراض ہوں گے۔
انشاء : خوامخواہ ۔ ۔ ۔
انشاء سکینہ کو اندر آتے دیکھ کر جھینپ کر سلیب سے فوراً نیچے اتر آتی ہے۔ سکینہ نے اپنا چہرا چادر سے چھپا رکھا ہے۔
ہاجرہ : آؤ۔ ۔ ۔آ ۔ ۔ ۔ناشتہ تقریباً تیار ہی ہے۔ نیند تو کیا آئی ہو گی نئی جگہ پر۔
سکینہ انشاء کو گھور رہی ہے۔
ہاجرہ : انشاء ہے
سکینہ : بڑی پیاری بچی ہے
ہاجرہ : مجھ پر گئی ہے نا، اپنے باپ پر گئی ہوتی تو ۔۔۔
سکینہ : جی ۔ ۔ ۔ امیرا رات سے بخار میں پڑی ہے۔ کوئی بخار کی گولی ملے گی۔
ہاجرہ: کیا ہوا؟ ( پھر انشاء کو دیکھتے ہوئے) تھکن ہو گئی ہو گی نا؟
انشاء : ( اسنگھٹ انداز میں ) ہاں
سکینہ : نہیں نہیں بخار آ جاتا ہے اسے ۔ پھر چلا بھی جاتا ہے۔ نصیبوں میں ہی بخار ہے اسکے۔ پیدائشی روگی ہے۔
ہاجرہ: انشاء ؟
انشاء : ھم ۔۔
ہاجرہ: تم دیکھو نا ذرا
انشاء : ھم ۔۔۔
ہاجرہ: تمہارے ابو کو پتا چلا تو پورا گھر ہسپتال بنا دیں گے
انشاء: ابو جی کو پتا چلتا ہے بخار ہے کسی کو گھر میں تو بستر سے نہیں نکلنے دیتے ہمیں۔ سب کی چھٹی کرا دیتے ہیں۔ ( وہ ساتھ ساتھ کچن سے باہر کو نکل رہی ہے) میں دیکھ کر آتی ہوں۔
سکینہ ہاجرہ سے مخاطب ہوتی ہے
سکینہ: بولتی تو بالکل مقصود صاحب جیسے ہے
ہاجرہ: حرکتیں بھی بالکل مقصود صاحب جیسی ہی ہیں۔ بڑے کٹھور ہیں یہ دونوں باپ بیٹی۔
سکینہ: میں کوئی مدد کراؤں آپ کی ؟
ہاجرہ: ہاں ہاں، آؤ نا پلیز۔ یہ دیکھو نا انشاء تو ذرا بھی گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ پیدا تو میں نے کی تھی بیٹی۔ انہوں نے بنا دیا ہے پکڑ کے پورے کا پورا بیٹا۔ وہ پڑا ہے بیلن۔ فرج میں آٹا گندھا رکھا ہے۔ الماری میں سے نکال لو گہی۔ دو پراٹھے الٹ دو فٹا فٹ۔
سکینہ کچھ ڈری، اسنگھٹ، اپنی چادر کے اوٹ سے کبھی کچن کو دیکھتی ہے کبھی ہاجرہ کو جس نے کچن میں، جو عورت کی راجدھانی ہوتی ہے، ساجھاداری کرتے ایک لمحے کو توقف نہیں کیا۔


سین ۱۱ :
اتاق نہار خوری (dining room) ۔ اندرون۔ صبح

ناشتہ کے میز پر بیٹھا مقصود اخبار پڑھ رہا ہے۔ ہاجرہ ساتھ کھڑی چینک سے چائے انڈیل رہی ہے۔ ہاجرہ متوجہ ہوتی ہے کہ مقصود اس سے آنکھیں چرا رہا ہے تو ساتھ ہی مسکراتی ہے۔
ہاجرہ : آنکھیں کیوں چرا رہے ہیں جی
مقصود اس کا کوئی جواب نہیں دیتا اور اخبار کو دیکھتا رہتا ہے۔
ہاجرہ: میں نے کتنا کہا سکینہ سے کہ ہمارے ساتھ ہی ناشتہ کرو۔۔۔۔ مانی ہی نہیں ۔۔۔ بخار ہے امیرا کو اب تک۔ گئی تھی انشاء مگر اس نے تو چادر سے باہر منہ ہی نہیں نکالا۔۔۔ چکھ کر تو دیکھیے آپ کی سکینہ نے بنائیں ہیں پراٹھے۔
( ہاجرہ مختلف جملوں سے مقصود کی توجہ حاصل کرنا چاہ رہی تھی۔ آخری جملے نے آخر اثر کیا)
مقصود: زیادہ گھر میں گھسانے کی ضرورت نہیں ہے اسے۔پوچھو کیا چاہتی ہے اور چلتا کرو۔
ہاجرہ : میں کیوں پوچھوں ؟ اور میرے پوچھنے سے بتائے گی کیا؟ آپ ہی پوچھیے نا یا میرے سامنے پوچھتے شرم آ رہی ہے۔ اب میرا میکا ہوتا تو میں چلی جاتی آپ دونوں کو اکیلا چھوڑ کر پر کیا کروں۔ ( پھر شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ) کبھی بھی نا جاتی، پاگل نہیں ہوں، جو اپنا کھونٹا چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔ وہ تو انشاء ہے جو چھٹی کے موڈ میں تھی کہ دیکھیں آج گھر میں کیا کیا ہوتا ہے۔ ( پھر خود ہی ہنستی ہے)
مقصود اسے گھور رہا ہے۔
مقصود: ( بہت سنجیدگی سے) اسے کیا بتایا تم نے ؟ کیوں بتایا؟
ہاجرہ : ہائے جی! میں نے کیا بتانا ہے؟ اس گھر کے در و دیوار پر لکھا ہے سکینہ کا ۔۔۔۔
مقصود: اچھا بکواس نہ ۔۔

مقصود بکواس کا لفظ منہ سے نکال کر کچھ شرمندہ ہوتا ہے۔ ہاجرہ ھنوز مسکرائے جا رہی پے۔
مقصود جیب سے پیسے نکالتا ہے اور ہاجرہ کے سامنے گن کر پھینکتا ہے۔
مقصود : کچھ کھلاؤ پلاؤ اور چلتا کرو یہاں سے
ہاجرہ : ( قدرے حیرانی سے) ہائے جی آپ تو بہت ہی کٹھور ہیں
مقصود : جو ۔۔۔ ( "کہہ دیا سو کہہ دیا" کہنا چاہتا ہے )
مقصود اپنا جملہ کہتے کہتے رک جاتا ہے کہ اس کی نظر سکینہ پر پڑتی ہے جو ہاجرہ کے پیچھے کھڑی دروازے کی اوٹ سے یہ سب سننے کے بعد بغیر آواز نکالے اتھرو بہا رہی ہے۔ اس مغموم حالت میں سکینہ کی چادر اس کے چہرے سے ہٹ جاتی ہے۔ مقصود برسوں بعد اس کا چہرا دیکھتا ہے۔ اس کے چہرے پر نیل کا نشان دیکھ کر وہ فکرمند ہو جاتا ہے۔ سکینہ مقصود کے چہرے کے بدلتے خط و خال دیکھ کر پیچھے مڑتی ہے اور سکینہ کا زخمی چہرہ دیکھتی ہے۔ سکینہ اپنے زخم کو فوراً چادر سے ڈھانپ کر اپنا چہرا دوسری طرف کر لیتی ہے۔ اسکی بے بسی اسکے چہرے سے صاف ظاہر ہے۔


سین ۱۲ :
یونیورسٹی کا باغ ۔ بیرون ۔ صبح


انشاء اور عبد الرحمن کسی بینچ پر بیٹھے ہیں۔ انشاء چاٹ کھا رہی ہے اور عبد الرحمن لون کا فارم بھر رہا ہے۔

انشاء :ام( چاٹ منہ میں ڈالتے ہوئے ) ۔۔۔ آج نا ویسے میرا بالکل موڈ نہیں تھا آنے کا۔۔۔ امی بھی نا ۔۔۔ ام ۔۔۔ ( عبد الرحمن کی غلطی بھانپتے ہوئے) کیپیٹل میں لکھنا تھا ۔۔۔ کیپیٹل!
عبدالرحمن : کیوں نہیں آنا تھا آج ؟ لون اپلائی کرنے کی آخری ڈیٹ ہے آج یاد ہے نا؟ یہ فارم کس نے بھروانا تھا؟
انشاء : خود بھرو ہاتھ نہیں ہیں
عبد الرحمن : نہیں میری جان تم نے بھروانا تھا ۔
انشاء : ھم۔۔۔ بس چیپ سا رومینس کروا لو سستے ڈائلوگ بلوا لو ۔۔۔ ہیں؟
عبد الرحمن: ہاں نا ( مسکراتے اور ساتھ ساتھ فارم بھرتے ہوئے )
انشاء : دونوں جگہ، دونوں جگہ۔۔۔ میں کہاں پھس گئی ہوں یار ( تنگ آ کر)
عبد الرحمن: دیکھا، یہ سب مجھے کس نے بتانا تھا۔
انشاء : ایک بات بتاؤں تم مجھے یا میرے ابو کو جج تو نہیں کرو گے ؟
عبد الرحمن : یار میں انہیں کیوں جج کروں گا
انشاء : خیر تم مجھے جج کرتے بھی رہو تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ( توقف کے بعد) ہمارے ہاں مہمان آئے ہیں۔ جن کی وجہ سے میرا موڈ نہیں ہو رہا تھا آنے کا۔
عبد الرحمن: کون آ گیا ہے بھئی؟
انشاء : میرے ابا کی محبوبہ
عبد الرحمن:واٹ؟ ریلی؟
انشاء ہاں میں سر ہلاتی ہے۔


سین ۱۳:
اتاق نہار خوری۔ اندروں ۔ صبح

سکینہ ڈاینگ ٹیبل پر بیٹھی ہے اور ہاجرہ اس کے زخموں پر مرہم لگا رہی ہے۔
ہاجرہ : جھٹکا لگا ہو گا اور کیا، ریل گاڑی کے غسل خانوں میں تو ویسے بھی کتنی پھسلن ہوتی ہے۔ ہم لوگ نا ایک دفعہ کراچی جا رہے تھے، ( دوسرے کمرے میں موجود مقصود سے مخاطب ہو کر ) آپ کو یاد ہے جی؟ ۔۔۔ میں پورے پیٹ سے تھی، حالانکہ میں نے تو کس کے زنجیر بھی پکڑ رکھی تھی کہ بس ایک جھٹلا لگا اور پیر پھسل گیا۔ ڈاکڑ کہتے ہیں لڑکا تھا۔ ( مقصود اتاق نهار خوری میں داخل ہوتا ہے ) میں بچ گئی وہ نہیں بچا۔ ( دوائی لگاتے ہوئے ) میرے انشاء سوا سال کی تھی تب۔ سب لوگ ہمیں چھیڑتے تھے کہ دونوں میاں بیوی میں اتنی محبت ہے کہ 9 مہینے ہوئے نہیں کہ دوسرا بچہ ( سکینہ کو اپنی باہمی محبت سے آگاہ کرتے ہوئے ) ۔۔۔ نظر لگا دی کمبختوں نے اس کے بعد ہوئے ہی نہیں۔
( دوا لگا چکنے کے بعد اونچا بولتے ہوئے ) اچھا جی کیا کرنا ہے اب؟ ( مقصود کو کمرے میں پا کر آہستگی سے ) او ۔۔۔ انجیکشن لگے گا نا؟

سین ۱۴ :
یونیورسٹی کا باغ ۔ بیرون ۔ دن

انشاء : بچپن سے ایک ہی کہانی سنایا کرتی تھی امی، سکینہ کی کہانی۔ دریا کے پاس ایک گاؤں تھا وہاں بوریاں بھر بھر کر فصلیں اگا کرتی تھیں۔ وہاں رہتی تھی سکینہ، پکی ہوئی گندم کے سینے جیسا رنگ تھا سکینہ کا۔ دریا پر جب سورج ڈوبتا تھا تو سارا آسمان گلابی ہو جاتا تھا۔


سین ۱۵ :
اتاق نہار خوری۔ اندروں ۔ صبح

( ہاجرہ مقصود کے ٹیکا لگانے کے لئے بلاتی ہے اور خود کمرے سے چلی جاتی ہے۔ مقصود کچھ کہنے سے ہچکچا رہا ہے۔ تبھی سکینہ قمیض کی آستینیں چڑھاتی ہے، مقصود سکینہ کے بازو پر سگریٹ کے نشان دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔)
انشاء: ( وائس اوور جاری ہے) بس ویسے ہی گال تھے سکینہ کے۔ دریا کے پانی کی طرح ٹھاٹھیں مارتی صاف شفاف آنکھیں۔ عصر کے بعد جو گاؤں کی چکی ہوکتی تھی تبھی آخری ریل گاؤں کے سامنے سے چھک چھک کرتی گزرتی۔ گندم کے کھیتوں کے پاس، دریا کے ساتھ، تب تندور تاپتی سکینہ کی سانسیں بھی تپنے لگتیں۔ کیا پتا وہ آج کی ریل سے ہی آ جائے۔

سین ۱۶ :
یونیورسٹی کا باغ ۔ بیرون ۔ صبح

ریت مین لت پت، کھیتوں کے بیچوں بیچ، پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے سکینہ تک پہنچتے اور پوچھتے، ارے تو نے تو لکھا تھا تو بیمار ہے مرنے والی ہے۔
عبدالرحمن : ( مسکراتے ہوئے) واہ یار کیا لو سٹوری ہے یہ تو


سین ۱۷ :
اتاق نھار خوری۔ اندروں ۔ صبح

سکینہ : بس پتا ہی نہیں چلا، ایک جھٹکا لگا اور میں پھسل گئی۔ نشان ہی زیادہ آ گئے ہیں مقصود صاحب، ورنہ چوٹ اتنی نہیں آئی۔
مقصود : ( چیزیں واپس رکھتے ہوئے ) ہاجرہ ! ہاجرہ! دیکھو اور کہاں کہاں چوٹیں آئی ہیں۔
سکینہ : بس یہیں پر اور کہیں نہیں آئیں
مقصود: ( غصے میں ) کس چیز سے مارا ہے اس نے ؟ ھم؟ صرف بازو پر سگریٹ لگاتا رہا یا کہیں ۔۔۔ (ہاجرہ سے مخاطب ہو کر ) دودھ میں ہلدی ڈال کر پلاؤ اسے، اور انشاء سے کہنا اس لڑکی کو دکھا کے آئے۔ کوئی پین کلر ہو تو دو۔


سین ۱۸ :
یونیورسٹی کا باغ ۔ بیرون ۔ صبح

عبدل موٹر سائیکل پر بیٹھا کک مار رہا ہے۔
انشاء : اتنی جھوٹی کہانیاں کیوں سناتے ہیں بچوں کا دل بہلانے کے لیے ۔۔۔ نہیں چلے گی، سپارک ہی نہیں ہے پلگ میں، دیکھو ، چیک کرو
عبدل: ( پلگ دیکھتے ہوئے) ارے یار یہ تو واقعی فارغ ہو گیا ہے ۔
انشاء : ھم ---

عبدل : اب کیا کریں
انشاء: اب تو تم مجھ سے شادی کرو ، سارے مسئلہ ہل ہو جائیں گے۔ تمھیں لون بھی مل جائے گا، تمھارا پلگ بھی چارج ہو جائے گا۔ اور تمھارے فرج میں تازا کھانا بھی ہو گا باسی کے بجائے ۔
عبدل : یہ کہانی تو لفظ بہ لفظ سچی ہے خدا کی قسم۔ ایک دفعہ ہماری شادی ہو جائے نا تو سارے مسئلہ ٹھیک ہو جاہیں گے۔
انشاء : انشاء اللہ
عبدل: بینک سے لون بھی مل جائے گا، یہ پھٹیچر بائک ہواؤں میں اڑنے لگے گی اور میں تمھارے لئے سپیشل قورمے اور زردے پکاؤں گا۔
انشاء اور عبدل خراب بائیک کے ساتھ چلتے جا رہے ہیں۔

سین ۱۹:
اتاق نہار خوری۔ اندروں ۔ دن

سکینہ صوفہ پر بیٹھی ہے اور ہاجرہ اس کی کمر پر بنا گہرا زخم دیکھ رہی ہے۔
ہاجرہ : بھئی کیوں مار کھاتی رہیں اس کی ایک دیتیں نہ پلٹ کہ تو پتا چلتا اسے۔ سکینہ : وہاں رواج ہی نہیں ہے جی
ہاجرہ ناشتہ کا سامان سمیٹتی ہے۔ اور ساتھ ساتھ سکینہ سے مخاطب ہے۔
ہاجرہ: ارے تمھاری چمڑی ادھیڑ دی تمھارے شوہر نے تمھیں مار مار کے، اس کا رواج ہے؟ اور کرو اس آدمی سے شادی۔ کر لیتیں نہ مقصود سے مزہ میں رہتیں۔ آج تک اونچی آواز میں بات نہیں کی انھوں نے مجھ سے، سو سکھ دیے ہیں۔ منہ سے بعد میں نکالتی ہوں پوری پہلے ہو جاتی ہے۔ جو بھی کماتے ہیں سیدھا میری ہتھیلی میں رکھتے ہیں۔ ذرا سا درد ہو جائے سر میں ایسے پریشان ہو جاتے ہیں جیسے پتا نہیں کیا ہو گیا۔
سکینہ : بڑی خوش نصیب ہو جی آپ، میرے ہی نصیب کالے ہیں۔
ہاجرہ : خود ہی کالے سفید کیے ہیں تم نے سکینہ۔ پہلے اپنے ہاتھوں اپنی قسمت برباد کی، اب اسے کوس رہی ہو۔ اب کیا فائدہ۔
سکینہ : چلی جاؤں گی میں، زیادہ دیر نہیں رہوں گی۔ جوں ہی کوئی بندوبست ہو جائے گا نا، چلی جاؤں گی۔
ہاجرہ : چلی جانا، زخم بھر جائیں، چلی جانا


سین ۲۰ :
کچن ۔ اندرون ۔ دن

انشاء فریج سے پانی نکال رہی ہے کہ ہاجرہ اندر داخل ہوتی ہے۔
ہاجرہ : ارے تم کب آئیں۔
انشاء : کیا بات ہے بڑا بہناپا چل رہا تھا۔
ہاجرہ : (برتن دھوتے ہوئے) ذرا امیرا کو، تمھارے ابو کہہ کر گئے ہیں، دیکھ لو، اسے ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔
انشاء: ہاں، آ گیا تھا مجھے "مقصود صاحب" کا فون۔ رکشہ لے کر آئی ہوں۔
ہاجرہ: بھوکی پیاسی، چادر میں منہ دیے، گٹھڑی سی بنی پڑی ہے بیچاری۔
انشاء: تو کیا کروں، رکشہ بھجوا کر ایمبیولینس منگوا لوں۔
ہاجرہ : کیا بےحسی ہے انشاء، دکھی ماں بیٹی ہیں بیچاری۔
انشاء: میری بات مانیں، ان کو زیادہ فری کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی اوور ہونے کی ضرورت ہے، یہ نا ہو کل کو آپ کے لئے ایمبولینس بلوانی پڑ جائے۔
ہاجرہ: اچھا آہستہ بولو سن لیا سکینہ نے تو؟
انشاء: ارے تو کیا ہو گیا؟ یہ وہی سکنیہ ہے جس کے عشق میں مبتلا ہو کہ ابو نے آپکو زندگی بھر نہیں دیکھا۔ اپنے آپ کو دیکھیں، ان کو دیکھیں، کوئی کمپیریزن ہے ؟ اتنی دھماکے دار لو سٹوری کی اتنا پھسپھسا اینڈنگ۔ ہاؤ بورنگ
ہاجرہ : مار مار کر چمٹی ہی ادھیڑ دی ہے اس کی۔ پوری پیٹھ پر چوٹوں کے نشان ہیں پتا ہے؟ جگہ جگہ سگریٹ بھجائے ہوئے ہیں۔ پتا نہیں کیا کیا سہتی رہی ہے بیچاری۔ بھاگ کیسے آئی یہ پتا نہیں۔
انشاء : ( اچمبے سے) بھاگ آئی ؟ ( قریب آ کر) پولیس کیس ہوجائے گا۔ ان کی دوا دارو کرائیں اور چلتا کرائیں۔ بہت سارے دارالامان ہیں اس شہر میں۔
ہاجرہ: بے کار باتیں مت کرو۔ جا کے امیرا کو دیکھو تم ۔
انشاء: ارے یار امی آپکی سمجھ ہی نہیں آتی مجھے، کس طرح کی عورت ہیں آپ۔ آپ کی جگہ کوئی اور عورت ہوتی اتنا چیختی، ہنگامہ کرتی۔
ہاجرہ: ہیں؟ کیوں بھئی؟ بیچ رات میں دکھی، بیمار، زخمی ماں بیٹی ہمارے دروازے پر آئیں گے اور میں ہنگامہ کروں گی، یہ کرنا چاہیے تھا مجھے؟
انشاء : آپ کو انسکیور ہونا چائیے تھا۔ اگر نہیں ہو پا رہی ہیں تو چلیں میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس
ہاجرہ: جا کے امیرا کو دیکھو !
ہاجرہ سر جھٹک کر اپنی برہمی کا اظہار کرتی ہے۔
انشاء : چائے رکھی ہوئی ہے میں نے !
ہاجرہ: دیکھ رہی ہوں
ہاجرہ غصے سے برتن دھوتی جاتی ہے۔


سین ۲۱ :
مہمان خانہ۔ اندرون۔ دن

امیرا سر پر چادر ڈالے سونے کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ امیرا اس کے سر پر کھڑی ہے۔
انشاء : میں سچ کہہ رہی ہوں، بہت آرام سے کہہ رہی ہوں۔ ابو جی آ گئے تو ہاتھ پاؤں باندھ کر لے جائیں گے ڈاکٹر کے پاس۔ پھر تمھاری مرضی ہے تم جیسے چلنا چاہو۔
امیرا منہ سے چادر ہٹاتی ہے۔ انشا اس کے ڈھونگ کو بھانپتے ہوئے، ڈھونگ میں شامل ہو جاتی ہے۔
انشاء : پڑی رہو۔ رکشہ واپس کروا دیتی ہوں۔ اب مقصود صاحب جانے یا تم۔
امیرا کا ہارا ہوا چہرا دیکھتی ہے تو فوراً گویا ہوتی ہے
انشاء: ابھی گھنٹا نا لگا دینا تیار ہونے میں۔ باہر رکشہ کا کرایہ بن رہا ہے اور مقصود صاحب ایک ایک پائی کا حساب لیتے ہیں۔
امیرا انشاء کے کمرے سے جانے کا انتظار کرتی ہے اور تب تک مسکین بنی رہتی ہے۔ اس کے کمرے سے نکلنے پر پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے اور ایک توقف کے بعد اٹھ بیٹھتی ہے۔ چادر لپیٹ کر، جوتیاں پہن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔


سین ۲۲:
ڈیوڑھی۔ بیرون۔ سہ پہر

ہاجرہ گملوں میں لگے پھلوں کی نوک پلک درست کر رہی ہے،
سکینہ :۔ ہاجرہ جی، سویرا ہی بڑی جلدی ہو جاتا ہے گاؤں میں، سویرا ہونے سے پہلے ہی اٹھ جاتے ہیں لوگ۔ جانور ہی نہیں سونے دیتے۔ سو سکھ ہیں نا تو سو دکھ بھی ہیں جانوروں کے۔
ہاجرہ: ( محظوظ ہو کر) تم سنبھالتی ہو جانوروں کو۔
سکینہ: ہاں جی، میں نے ہی سنبھالنے ہیں نا جی۔ بھوری سون والی تھی۔ پتا نہیں کس حال میں ہو گی۔
ہاجرہ : ( سوالیا نظروں سے) بھوری؟
سکینہ : بھینس ہے میری۔ میرے جہیز میں آئی تھی۔ ذرا سی کٹی تھی نا۔ اب تو ماشا اللہ سون والی ہے۔ میرے بچوں جیسی ہے۔ اکیلا چھوڑ آئی ہوں میں اسے۔ پتا نہیں کس حال میں ہو گی۔
ہاجرہ: ارے اچھا کیا جو آ گئیں۔ابھی بھی دیر لگائی ہے تم نے۔ ایک بار اور مارتا نا تو ۔۔۔
سکینہ: نہیں نہیں، اب نی مارتا
ہاجرہ: نہیں مارتا؟
سکینہ : نہیں ( ہارے ہوئے لہجے میں )
ہاجرہ: ( اس کے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تو یہ کس نے مارا؟
سکینہ: یہ تو جی، گھر میں لڑائی پڑ گئی تھی تو لگ گئی مجھے، اینویں ہی۔ اب نی مارتا، اب اس نے مجھے مارنا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے مارتا تھا۔ مجھے جب پیار کرتا تھا، اب کسی ہور سے پیار کرتا ہے۔
مقصود ڈیوڑھی میں اپنا سامان لئے نمودار ہو جاتا ہے۔
ہاجرہ : سن لیں ذرا اس کی باتیں آپ
سکینہ مقصود کی موجودگی کا ادراک کرتے ہی سر پر۔دوپٹہ رکھ لیتی ہے۔
ہاجرہ : ( بیگ لیتے ہوئے ) یہ سکینہ تو بالکل ہی پاگل ہے جی۔ ہاجرہ بیگ رکھنے گھر کے اندر چلی جاتی ہے۔ ایک لمحے کو سکینہ اور مقصود ڈیوڑھی میں اکیلے ہیں۔
سکینہ : ( سر پر پلو لئے، سر جھکائے ہوئے) ہاجرہ جی کتنی اچھی ہیں۔ کتنی پیار سے باتیں کرتی ہیں۔ ( اس کا جملہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ مقصود اندر کو چلا جاتا ہے) کتنے خوش قسمت ہیں ۔۔۔ ( سر اٹھا کر مقصود کو دیکھتی ہے، جو سکینہ کی طرف پشت کیے اندر جا رہا ہے) ۔۔۔ آپ
سکینہ سر جھکا لیتی ہے۔


سین ۲۳ :
گھر کے باہر، گلی ۔ بیرون۔ سہ پہر

امیرا اور انشاٰ کا رکشہ رکتا ہے۔
انشا : بس بس بس
انشا باہر نکلتی ہے
انشا : کتنے ہوئے بھائی
رکشہ والا : باجی تین سو
انشا: جیسے مجھے تو پتا ہی نہیں ہے کہ کتنے بنتے ہیں یہاں تک۔ ( سر جھٹکتے ہوئے پیسے نکالتی ہے) اتنے بنتے ہیں، رکھنے ہیں تو رکھ لو، نہیں تو واپس لے لیتی ہوں۔ ٰ
رکشہ والا خاموشی سے پیسے رکھ لیتا ہے۔
انشا: تم اندر دبک کے بیٹھی ہو، ڈولی آئے گی تمھیں لینے؟ اترو! امیرا خاموشی سے رکشہ سے باہر نکلتی ہے۔ اپنا پلو سنبھالتے ہوئے رکشہ کے سامنے سے ہو کر اندر کو جانے لگتی ہے کہ رکشہ والا اپنا رکشہ سٹارٹ کر کے امیرا کہ بہت قریب سے گزرتا ہے۔
امیرا : اوے کی کر ریاں ہیں؟
امیرا رکشہ والے پر اونچی آواز میں پھنکارتی ہے۔
انشا: واہ! اب تو بڑی آواز نکل رہی ہے۔ وہاں تو گونگوں کی طرح بیٹھی ہوئیں تھیں۔ انشاء سر جھٹکتے ہوئے گھر میں داخل ہوتی ہے۔


سین ۲۴ :

 اتاق خواب، بیرون، سہ پہر 
مقصود اپنی گھڑی اور انگوٹھی اتار رہا ہے۔ جب کہ ہاجرہ پانی لے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتی ہے۔  
ہاجرہ : بڑی مزے کی باتیں کرتی ہے "آپکی" سکینہ۔ آپ کے سامنے ہی کچھ ہو جاتا ہے اسے۔ میں بھی سنتی رہی چپ چاپ۔ (مقصود پیسے گن کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتا ہے۔) دل بہل جائے گا اس کا۔ دہان بٹا رہے گا اسکا۔ 
مقصود: ارے نہ اس کا دہاں بٹانے کی ضرورت ہے نہ اس کا دل لگانے کی ضرورت ہے۔ 
ہاجرہ مقصود کے شام کے کپڑے الماری سے نکال رہی ہے۔ ہاجرہ: کیوں؟مقصود: کیوں کہ میں جو کہہ رہا ہوںہاجرہ: آپ دونوں باپ بیٹی کے دل سے تو خوف خدا ہی مٹ گیا ہے۔ کوئی غیر بھی آ جائے تو آدمی ایسی بدسلوکی نہیں کرتا۔(کپڑے بستر پر رکھتے ہوئے) یہ تو پھر سکینہ ہے۔ مقصود: (جرابیں اتارتے ہوئے) اسی لئے تو کہہ رہا ہوں، کیوں کہ وہ سکینہ ہے۔ ہاجرہ: بس اتنی ہی ہوتی ہے مرد کی محبت۔ چند سال گزرے نہیں، اور ختم۔ مقصود: ہاں اتنی ہی ہوتی ہے ہماری محبت، جو گزر گیا سو گزر گیا۔ 
ہاجرہ اس دوران پانی کا گلاس جو ابھی تک بھرا پڑا ہے ڈریسنگ ٹیبل سے اٹھا کر مقصود کو دیتی ہے۔ مقصود پانی پی رہا ہے۔ 
ہاجرہ: ڈرتے ہیں آپ! 
پانی کا خالی گلاس واپس ہاجرہ کو پکڑاتے اسے گھورتا ہے مقصود: میں کیوں ڈروں گا اس سے۔ہاجرہ: سنیے! اپنے آپ سے ڈرتے ہیں۔ کوئی ہمارے بیچ آ جائے اس سے ڈرتے ہیں آپ۔ ( مقصود جواب دیے بغیر بستر پر پڑے اپنے کپڑے اٹھاتا ہے۔ ) اب سکینہ سے کیا ڈرنا وہ تو ہمیشہ سے تھی۔ اور رہے گی۔ 
ہاجرہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھتی ہے جیسے مقصود کے دل کے بھیتر دیکھ سکتی ہو۔ مقصود کھسیانا ہو کر ادھر ادھر دیکھتا ہے۔ ہاجرہ اسی مسکراہٹ سے مقصود کے جوتے اٹھا کر کنارے پر اور وہاں سے جوتیاں اٹھا کر مقصود کے سامنے رکھتی ہے اور کمرے سے باہر نکل جاتی ہے۔

سین ۲۴ : 
اتاق نہار خوری، اندرون، رات 

انشا برتن لگا رہی ہے۔ مقصود صوفے پر بیٹھا ہے۔ 

مقصود: کیا کہا ڈاکٹر نے ؟انشا : یہی کہ پٹی بدلوانے کے لئے جانا پڑے گا۔ دوائی دے دی ہے۔ مقصود: اور زخم کیسے ہیںانشا: ویسے ہی ہیں جیسے سکینہ جی کے ہیں۔ پیٹھ پر ہیں۔ شاید گہرے ہیں۔ مقصود: ہم۔۔۔انشا: امیرا نے کچھ کہا ہی نہیں۔اچھا ہی ہے نہیں کہا۔ ایسا لگتا ہے کسی نے بہت بےرحمی سے جلتی ہوئی لکڑی سے مارا ہے۔ وہ لوگ نمبر مانگ رہے تھے، وہ بھی غلط دے کر آئی ہوں۔ ڈاکٹر تفتیش کرنا چاہ رہا تھا۔ اب جائیں گے تو وہ شاید پولیس بلا لیں۔
ہاجرہ سالن کا ڈونگا لئے اتاق نھار خوری میں داخل ہوتی ہے۔ ہاجرہ: امیرا کہاں ہے۔  بلاو اسے آ جاو بس۔ سکینہ گرم گرم روٹی لا رہی ہے۔مقصود: یہ ذرا سکینہ کو میرے کمرے میں لے کر آو۔ مقصود ( غصہ میں ) یہ کہتے ہوئے صوفہ سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دیتا ہے۔ ہاجرہَ: (اس کے چلے جانے پر) دیکھو ذرا، کیسے رعب جھاڑ رہے ہیں سکینہ کو دیکھانے کے لئے۔ ( سکینہ سے مخاطب ہو کر) رکھو جی روٹی۔ چلیں۔ 


سین ۲۵ :

 اتاق خواب، اندرون، رات

 مقصود اپنی عینک کا لپٹا ہوا تاگا کھول رہا ہے تاکہ عینک پہن سکے۔ ہاجرہ  آگے آگے کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ سکینہ اس کے پیچھے ہے پر کمرے میں گھستے رک جاتی ہے۔ 


ہاجرہ : آو، آ جاو ، تمہارے مقصود صاحب کا کمرہ ہے، آو آو ۔ سکینہ اندر آ جاتی ہے، ہاجرہ اسے چمکار رہی ہے۔ مقصود: کب سے چل رہا ہے یہ سب 

سکینہ : برا آدمی نہیں ہے رفیق مقصود صاحب، دل کا برا نہیں ہے، جنگلی ہے ذرا۔ کبھی کبھی زیادہ غصہ آ جاتا ہے اس کو۔ دوستوں کے ساتھ جاتا ہے، کبھی کبھی پی پلا لیتا ہے، پھر اس کا ہاتھ اٹھ جاتا ہے۔ ورنہ دل کا برا نہیں ہے۔ مقصود پھنکارتے ہوئے  سرعت سے سکینہ کے طرف بڑھتا ہے کہ سکینہ جھینپ جاتی ہے۔ مقصود : ارے مار مار کر امیرا کو زخمی کر دیا اس نے کہ بخار نہیں اتر رہا اس کا۔ اور تمھارے جسم پر تو ویسے ہی نئے زخموں کی جگہ نہیں ہے۔ کیونکہ پرانے ہی اتنے زیادہ ہیںہاجرہ: کیا کر رہے ہیں جی۔ ڈانٹ کیوں رہے ہیں اس بیچاری کو اس دوران سکینہ ڈر سے سسکیاں لینا شروع کر دیتی ہے۔ مقصود: ارے خود تو سہہ رہی ہے سو سہہ رہی ہے پر ۔۔۔ 
سکینہ: اسی لئے آئی تھی میں مقصود صاحب، اسی لئے آئی تھی میں۔ اس رات باہر سے آیا تھا وہ۔ روٹی بنانے کو اس نے بولا ۔۔۔ 


سین ۲۶ : 
مہمان خانہ ۔ اندرون ۔ رات

 امیرا : روٹی تھوڑی جل گئی تھی مجھ سے تو غصہ آ گیا ان کو۔ جلتی لکڑی اٹھا کر ۔۔۔ 

سین ۲۷ : 
اتاق خواب، اندرون، رات 

مقصود دور صوفہ پر بیٹھا ہے اور ہاجرہ اور سکینہ بستر پر۔ ہاجرہ سکینہ کو دلاسہ دے رہی ہے۔ 
سکینہ : وہ تو شکر ہے امیرا نے سوتی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آگ لگ جانی تھی نی تو۔ میں اندر گئی ہوئی تھی بھوری کو دیکھنے۔باہر اوس پڑتی ہے نا۔ 


سین ۲۸ : 

مہمان خانہ۔ اندرون۔ رات 

امیرا : پھر نیل گھول کر لگایا تھا اماں نے ، جدھر جل گیا تھا۔ پھر رات میں جب ابا سو گیا تو اماں نے کہا چل امیرا، مقصود صاحب کے پاس چلتے ہیں۔


سین ۲۹ :

 اتاق خواب ۔ اندرون ۔ رات 
سکینہ : (روتے ہوئے) کوئی میری بیٹی کو مارے مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ہاجرہ باجی۔ نہیں ہوتا میرے سے برداشت۔ ٰ(مقصود سے مخاطب ہو کر ) مقصود صاحب اس کو کچھ دن کے لئے اپنے پاس رکھ لیں۔ ایک دفعہ بھوری سو گئی نا میں سارے پیسے لا کہ آپ کو دے دوں گی۔ پر اب اس گھر میں نہیں رہے گی یہ۔ گاوں سے اس کا واسطہ ختم۔ اسکو آپ کے پاس چھوڑنے آئی ہوں مقصود صاحب۔ اس کو آپ کے پاس چھوڑنے آئی ہوں۔ہاجرہ: اور تم؟

سکینہ: میں چلی جاوں گی۔ میرا گھر ہے نا! میرا تو گھر ہے ادھر، میں چلی جاوں گی۔ میں رفیق کو کچھ سچ جھوٹ کہہ دوں گی۔ اسے کیا پتا لگنا ہے۔ میں چلی جاوں گی۔ 
ہاجرہ مقصود کی طرف دیکھ کر اس کے فیصلے کے انتظار کر رہی ہے۔


سین ۳۰ : 

مہمان خانہ۔ اندرون۔ رات 
امیرا: پتا لگ گیا ہو گا اب تک ابے کو۔ ( ایک توقف کے بعد) پہلے بھی اماں جب چولہے پر دودھ رکھ کر بھول جاتی تھی تو ابا یہی کہتا تھا ۔۔۔ کیوں؟ یاد آ رہی ہے اپنے یار، مقصود صاحب کی؟


سین ۳۱ :

 ڈیوڑھی  ۔ بیرون ۔ رات
ہاجرہ مقصود کے بستر کی شکنیں ٹھیک کر رہی ہے۔ 
ہاجرہ: کوئی خدا کا خوف ہی نہیں ہے۔ بیوی ہے یا غلام ہے۔ اور نبی جی تو غلاموں سے کتنا پیار سے بات کرتےتھے۔  ( بستر پر مچھر دانی لگاتے ہوئے) یہ رفیق تو مجھے کوئی بڑا ہی بدمعاش معلوم ہوتا ہے جی۔ اپنی اولاد سے اایسا سلوک ایسا ظلم۔توبہ۔ بیچاری امیرا، وہ بچی۔ حد ہے بھئی۔ سب ہوتے ہی قسمت کے کھیل ہیں۔ بد نصیب ہے سکینہ اور کیا۔ ورنہ آرام سے میری جگہ جی رہی ہوتی۔ ( ہاجرہ پانی لا کر مقصود کو تھماتی ہے) میں تو کہتی ہوں جی خدا میری انشا کے نصیب اچھے کرے۔اور باہر نہ سویا کریں۔ شبنم پڑنے لگی ہے۔ مجھے تو لگ رہا ہے مینھ پڑے گا۔اندر ہی سویا کریں۔ 
ہاجرہ اٹھ کر جانے لگتی ہے کہ مقصود مسلسل خاموشی کے بعد گویا ہوتا ہے۔

مقصود : یہ دونوں یہاں نہیں رہیں گی، فیصلہ کر لیا ہے میں نے۔ 
ہاجرہ : کیوں؟ کہاں جائیں گی؟

مقصود: میرا مسئلہ نہیں ہےیہ 

 ہاجرہ: کیا کہہ رہے ہیں جی؟ساری دنیا کو چھوڑ کر۔۔۔ 

مقصود : ساری دنیا کی خاطر ہی تو چھوڑا تھا اس نے مجھے

ہاجرہ:  تو؟ بیس برس پرانہ بدلہ لیں گے اس سے

 مقصود: ہاں لوں گا بدلہ میں

امیرا جو یہ سب پس منظر میں سن رہی ہوتی ہے پھنکارتی ہے

 امیرا:  اچھا جی، اور کون کون بدلہ لے گا، ہاں؟ بیس سال سے جو میرا ابا میری اماں سے بدلہ لے رہا ہے، اس کا حساب کون سے گا مقصود صاحب؟ وہ تو پہلے دیں۔ دن میں دس بار نا آپ کے نام کا طعنہ سنتی ہے وہ۔ اور ہفتہ میں بیس بار وہ آپ کے نام کی مار کھاتی ہے۔ اچھے کپڑے پہن لے نہ کسی دن، میرا ابا طعنہ دیتا ہے۔ بولتا ہے کیوں تیرا عاشق آ رہا ہے؟ اور جب گندے کپڑے پہنے تو تب بھی طعنہ دیتا ہے۔ بولتا ہے کیوں؟ اپنے مقصود صاحب کی یاد آ رہی ہے؟ اور ماں کھا کر میری ماں بیچاری روتی ہے نا تو اپنے جلتے ہوئے سگریٹ اس کے ہاتھ میں بھجاتا ہے ۔۔۔ یہاں۔ 
سکینہ بھی ڈیوڑھی میں آ جاتی ہے

سکینہ : چپ کر جا ۔ چپ کر جا امیرا جو غصہ میں بگولہ ہو رہی ہے چپ نہیں کرتی۔

امیرا : (جاری) اور کتنا بدلہ لیں گے میری اماں سے ؟ ( سکینہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھتی ہے جسے امیرا فوراً جھٹک دیتی ہے) اپنی سکینہ سے اور کتنا بدلہ لیں گے آپ مقصود صاحب؟ میرے ابا نے کبھی خوش نہیں رکھا ۔۔۔ سکینہ اس کے منہ پر زور سے ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دکھیل لیتی ہے۔ 

سکینہ : چپ کر ۔۔۔ چپ کر 

امیرا : نہیں اماں بہت ہو گیا۔
انشا یہ سب ماجرا پس منظر میں دیکھ کر ہکابکا ہے۔ مقصود اپنے عینک کے تاگے کو مروڑتے بہت گہری سوچ میں ہے۔ 


Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے