Skip to main content

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر


 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔ 

"  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا 

"چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔ 

بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا 
"  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔"

"مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کمار بٹالوی ان کی یہ خون تھوکتی تصاویر ہر دل عزیز ہیں۔

ان کتابوں نے بہت ظلم کیا ہے مجھ پر 
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہو ذھن 
مژدۂ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا 
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا 

ایک سکول میں ایک استانی نے اس سوال پر مضمون لکھنے کو کہا کہ انسان ٹریجڈی کی طرف کیوں کھچا چلا جاتا ہے تو ایک بچے نے اس کے جواب میں لکھا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ٹریجڈی انسان کی طرف کھنچتی چلی آتی ہو۔
ہون میں جاہل جیا بندا واں۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ میر صاحب نے بہت کچھ غم کے بارے میں لکھا۔

آگے دریا تھے دیدۂ تر میر 
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں

پر جب میر صاحب  کلی سے زندگی کے ثبات کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو وہ بھی چاہے تھوڑی دیر کو سہی، مسکراتی ہے۔ مسکراؤ بھائی، کِھلے ہوئے ہو تم بھی۔ 

کہا میں نے کتنا کے گل کا ثبات
 کلی نے یہ سن کر تبسم کیا۔"

بشارت بولا "بٹ صاحب اب آپ میر کی مثال ن ۔ ۔ ۔ نہ ہی دیں تو بھلا،  میر صاحب کلیوں سے تو  باتیں کرتے ہوں گے پر آپ کا  لح لح لحن و لہجہ  سن کر تو منہ بنا کر آپ کی ٹیکسی میں  بیٹھ رہتے پر ثبات چھوڑئیے ز ز ز  زکوٰۃ کے بارے بھی بات نہ کرتے۔" 

 آگے کہنا لگا" کیسے پر تعصب لوگ تھے یہ ویسے، کیا میر اور کیا جرمن فلسفی ش ش شوپنہاور۔  ایک پینڈوں سے ناراض تھا دوسرا عورتوں سے ، پر آپ پھر بھی ان کے اقوال ٹانکتے چوکتے نہیں۔ "   

" میں یہاں خودکشی کے ضروری مسئلہ پر بات کر رہا ہوں اور آپ میرے پنجابی لحن ولہجے پر خطبہ دے رہے ہیں، بلے بھئی تیری سینساں، تقریر کردے کال آئی ہوندی اے۔ خودکشی ایک عارضی مسئلہ کا دائمی علاج ہے  "

"شوپنہاور نے The world as will and represention  میں خودکشی کو ایک ڈرؤنے خواب سے جاگنے سے تشبیہ دی ہے۔ " بٹ صاحب بولے

"تو بھیا ڈراوونے خواب سے اٹھنے کا حق تو سب کو ہے؟" 

" اب کیا ہر بات مان لوں اسکی ول آف لائف مان لی یہ کافی نئی ہے خودکشتی پر اس کی دلیلوں سے دل ٹھنڈا نہیں ہوا میرا۔"

" میر بھی تو کہہ رہے ہیں 
آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا " بشارت بولا

 "خودکشی پر میں کانٹ کا قائل ہوں۔ جو خودکشی کا سوچے اس کو چاہئیے کہ وہ اس پر بھی فکر کرے کہ کیا وہ اس عمل کو عمومی طور پر لاگو کر سکتا ہے، یعنی ساری دنیا ہی کڑیں، صدقے جاواں تیرے " 

" پر میرے نزدیک اگر کسی چیز پر انسان کا حق ہے تو وہ اس کی اپنی زندگی ہے۔ سو ساری دنیا خود کو تلپٹ کرنے پر تل جائے تو میری کیا ذمہ داری ہے۔ میں اپنے ذاتی فعل کو یونیورسلائز کیوں کروں۔"  

" اوے حقِ خودکشی دی ہڑتال وچ کسے ہور نو قتل کیندا ہوندا ہے۔ توں وی کرن لگاں ای خودکشی؟ ذرا واحد متکلم کے صیغے سے پرہیز کر میرا پرا "

" میں نے تو ویسے ہی کہا تھا۔ میں سے مراد ہے انسان "

بٹ صاحب کو سستی جگت کا موقع مل گیا بولے

"بشارت اتنا بڑا دعوی نہ کر پتر میرا ۔ تو انسانوں میں پھر رہا ہے شکر کر، ورنہ پہلے صرف اپنی بات سے ہی پھرتا تھا توں"  

میں نے بٹ صاحب کو تیلی لگائی۔ 

بٹ صاحب ٹالسٹائی کی کتاب A confession پر آپ کا کیا تبصرا ہے ۔جس میں وجودیت اور اس کے نتیجے میں خدا کی غیرموجودیت کے یقین سے پیدا ہونے والی زندگی کی بے معنویت کو ایک حکایت کی طور پر پیش کیا ہے-" 

ٹالسٹائی نو ٹال ہی دیو رضی بھائن۔ سانوں نصیحت تے آپ فضیحت ۔سانوں کہندا اے کہ خود کشی کر لو تے آپ کردا کوئی نئ۔ پہلی گل ای وے کہ A confession میں جو کہانی اس نے سنائی ہے نا وہ دراصل سنسکرت یا پالی  سے ترجمہ ہوتے روس پہنچی ہے۔ ساڈی پیجی خودکشی سانوں ہی واپس کر رہے نے بلے وئی۔ ٹالسٹائی نے جو کہانی سنائی ہے وہ یہ کہ
 ایک انسان کے پیچھے ایک درندہ پڑ جاتا ہے اور وہ انسان دوڑتے دوڑتے ایک ایسے کنویں تک آن پہنچتا ہے جس میں ایک اژدہا بیٹھا اس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ سو وہ انسان دو مصیبتوں میں پھنس جاتا ہے، آگے گٹنے ٹٹن، پیچھے انکھاں پھوٹن۔ کنویں کے منہ میں ایک  ایسے لٹکے انسان کی ھیجان زدہ صورتِ حال پر کیا پہلے ہی کم ترس آ رہا تھا کہ دو چوہے، ایک کالا ایک سفید ،اس بیل کو کترنا شروع کر دیتے ہیں۔ 

یعنی وہ کنواں یہ دنیاوی زندگی ہے اژدہا موت ہے، زمینی درندہ دنیاوی پریشانیاں ہیں اور چوہے دن اور رات ہیں۔ 

 وہ کہتے ہیں کہ اب اس کے نتیجے میں چار مختلف ردِ عمل وجود میں آ سکتے ہیں:
 
 پہلا یہ کہ انسان قضا سے لا علم ہو اور یوں جب تک وہ اس کے دروازے پر دستک نہ دے زندگی کو ہنسی خوشی گزارتا رہے۔اس فلسفے کو آپ نے ٹرکوں کے پیچھے لکھا دیکھا ہی ہو گا "عقل نہیں تے موجاں ہی موجاں ، عقل ہووے تے سوچاں ہی سوچاں۔" 
  دوسرا ردِ عمل Epicureanism یعنی عشرت گیرائی یا آنندواد کا ہے۔ جس میں آپ زندگی کی بے ثباتی کو جانتے بوجھتے ہوئے ignore کر دیں اور جو وقت آپ کے پاس ہو اسے ہنسی خوشی گزاریں یعنی اس بیل پر لگے شھد کو چاٹتے رہیں یہاں تک کہ موت کا اژدہا آپ کو نگل نہ لے۔ 
  رباعیات کے استاد، ریاضی دان، فلسفی و ستارہ شناس جناب عمر خیام نیشاپوری اسی فلسفے کے حامی ہیں 
کہتے ہیں 
برخیز و بیا بتا برائ دل ما
حل کن به جمالِ خویشتن مشکلِ ما
یک کوزہ شراب تا بہم نوش کنیم
زان پیش که کوزہ ھا کند از گِل ما

(اٹھ اور یہاں آ اے صنم، ہمارے دل کے لیے 
ہماری مشکل اپنے حسن سے آسان کر 
آ ایک شراب کا کوزہ ساتھ بیٹھ کر پئیں
اس سے پہلے کہ ہماری خاک سے کوزہ بنائے جائیں )

چون عھدہ نمیشود کسی فردا را 
حالی خوشدار این دلِ پرسودا را
می نوش به ماهتاب ای ماہ که ماہ
بسیار بتابد و نیابد ما را

(چونکہ کوئی بھی فردا پر دسترس نہیں پا سکا
تو پھر حال میں اس دلِ پرسودا کو خوش رکھ
اے ماہ رو ماہتاب کے ساتھ شراب پی
کہ ماہتاب بہت چمکے گا پر ہمیں نہ پائے گا")

" بس کردو استادو، کدھر چھ چھ چھ چھیڑ دیا آپ نے بٹ صاحب کو۔ کھانا کھلا دو بہت بھول لگی ہے۔ " بشارت بولا 

ہم سب کچن کی طرف چلے گئے۔ ہر کسی نے اپنے اپنے کام پکڑ لیے۔ کوئی مرغی کاٹنے لگا کوئی سلاد۔ 

میں نے کہا " بٹ صاحب دیکھیں،  نہ یہ مرغی بچی نہ یہ سبزی۔ سب اپنے اختتام کو پہنچے" 

بٹ صاحب بولے " یار ایک تو میرا تسلسل توڑ دیا دوسرا مجھے اور تیلی دے رہے ہو۔  ایک زندگی کا اختتام دوسری زندگی کا آغاز ہے۔ ابو اعلی معری کے شعر کو ٹرانس کریئٹ آپ نے خود تو کیا ہے 

نکلے ہیں کسی رانی کے تِل سے یہ سیاہ پھول
کانٹے کسی سالار کے ناوک سے اُگے ہیں 
اس دشت  میں تیری ہی فقط خاک نہیں جو
بے انت زمانوں کے بگولوں میں اڑے ہے

میں اپنی ٹالسٹائی کی کہانی مکا لوں اگر اجازت ہو؟ "

"جی جی بٹ صاحب شروع ہو جاؤ رے سانوں سخت پا دیو" بشارت بولا

لو جی فر۔ دو آپشن بتا دیے تھے اب تیسرا سنو۔

بقول بیدل
خیال زیست دردیست بیدل
که غیر از مرگ درمانی ندارد

(زندگی کا خیال درد ہے بیدل 
کہ موت کے علاؤہ اس کا کوئی علاج نہیں)

 ٹولسٹوئے کے مطابق تیسرا اور عقلی طور پر ایماندار ترین ردِ عمل خودکشی کا ہے۔ اگر خدا کا وجود نہیں ہے اور موت اٹل ہے تو انتظار کس بات کا ؟ اس تکلیف کا خاتمہ جتنا جلد ہو اتنا اچھا- پھڑکا دو اپنے آپ کو۔ پر ساتھ ہی وہ لوگوں کو تو یہ کہہ رہے ہیں کہ بھائی اگرچہ یہ سب سے اچھا طریقہ ہے پر ہم یہ ہرگز نہ کرنے کے۔ تسی بہادر ٹھہرے سو تسی کر لو، اساں ٹھہرے ڈرپوک اس لئی، اس منتقی دلیل کے باوجود، زندگی کو ختم نہیں کر سکتے۔


سو کہانی مکاؤ جان چھڑکاؤ
 
 
بہرحال چوتھا ردِ عمل یہ ہے کہ۔۔۔ بشارت بیٹا کچومر سلاد کا مطلب یہ نہیں کہ سلاد کا واقعی کچومر نکال دو۔ ویسے کیا بات ہے ایرانیوں کی وہ جسے سلادِ شیرازی کہتے ہیں ( فارسی لحن کی کوشش کرتے ہوئے) اسے ہم کچومر سلاد کہتے ہیں۔ واپس ۔۔۔ چوتھا ردِ عمل یہ ہے کہ 
زندگی خدا کے بغیر بے معنی ہے اور یوں اس غم میں بیل سے لٹکے رہ کر موت کے انتظار میں غمزدہ زندگی گزار دی جائے۔ 
 
 بقول حافظ
 از ہر طرف کہ رفتم جز وحشتم نیافزود
 زنہار ازاین بیابان وین راہِ بے نہایت
 
( ہر راہ سے کہ جہاں میں گیا سوائے اپنی
  وحشت کے کچھ نہ پایا 
 اس بیابان اور اس نہ ختم ہونے 
 والی راہ سے خبردار رہو)

 
 الغرض آپ کو مغربی اور مشرقی شعریت میں بہت سے شعراء اور مصنفین ملیں گے جو زندگی کی لایعنیت، اس کی بے معنویت کی توثیق و تصدیق کرتے ہیں۔  

سنسکرت یا پالی میں لکھی گئی کہانی میں ایک گورو آ کر آپ کو نروان کی طرف بلا رہا ہے ۔ رسی ڈال کر آپ کو کنویں سے باہر نکالنا چاہتا ہے پر ہم شہد کھانے میں اس قدر مگن ہیں کہ ہر اس رسی کی طرف نگاہ نہیں ڈالتے۔ چلو گرو کو بھی ڈالو بھاڑ میں۔ 
پہلے یہ سمجھو کہ خدا کی موجودگی نے عالم کو دوام بخشا ہے اور اس دوام نے ایک معنویت دی ہے۔ خدا کی غیر موجودگی ہر چیز کو بے معنی کر دیتی ہے کیونکہ ہمارے اردگرد ہر چیز کو بے ثباتی سے دوچار ہونا ہے۔  ہمیں کسی صورت اس وحشت کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی خوش رہنا ہے۔ ہمیں بے شک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا ہوا سمجھو کہ ہم بے عقلوں میں گردانے جائیں یا عشرت گرائی کے مقلد سمجھو جو ایک لمحے کو ہی صحیح پر ان بیلوں پر شہد چاٹ رہا ہے بقول شخصے 
" سانو ایہی بچدا ہے پہنان"۔

 میر کے شعر پہ واپس آئیے اگر کھل کر مرجھانا پھول کی جبلت میں ہے تو کیا وہ کھلنا چھوڑ دے۔ 


"ذرا یوٹیوب پر وڈی ایلین کی فلم love and death کے اس سین کے ڈائلاگ ہی سنا دیں جس میں بورس اور سونیا آپس میں خدا کے ہونے نہ ہونے پر بحث کر رہے ہیں  " میں نے بٹ صاحب سے التجاء کی ۔

وڈیو کے ڈائلاگ یہ تھے  

Boris : what if there is no God"
Sonja: Boris Dimitrovich ! Are you joking ?
Boris: What if we're just a bunch of absurd people, who are running around with no rhyme or reason? 
Sonja: But if there is no God, then life has no meaning. Why go on living, why not kill yourself ? 
Boris : Well, let's not get hysterical, I could be wrong, I'd hate to blow my brains out and read in the papers they found something (pointing upwards) " 
https://m.youtube.com/watch?v=X5cQcmAtjJ0

" فلسفے کی دنیا میں خود کشی ایک اہم مضمون ہے۔ جس میں لوگوں نے خود کشی کے خلاف اور اس کے حق میں بہت سی دلیلیں دی ہیں۔ اور میں دلیلوں کی جنگ تو جیت نہ پاؤں گا۔ میں یہ کہتے کتراؤں گا نہیں کہ میں خود بھی اسی دھانے پر تھا کہ خود کشی کر گزرتا پر پھر میں نے سوچا کہ اس زندگی پر میرا حق ہرگز نہیں ہے۔ اب جو لوگ مذہبی ہیں وہ یہ حق خدا کو دیتے ہیں اور جو غیر مذہبی ہو وہ یہ حق اپنے پیاروں کو سونپ دیں۔  یہ زندگی ایک تحفہ ہے جسے غارت کرنے سے پہلے  مشورہ کرو بھئی، چاہے کسی ذہنی امراض کے ڈاکٹر سے یا کسی عقل مند سے جس کا مشورہ قابل اعتبار ہو ، کیوں کہ اگر آپ اتنے ڈپریسڈ ہیں، اور خود کشی کا سوچ رہے ہیں تو آپ کے کیے گئے فیصلے پر خود آپ کو بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔" 
جیودنے رہو تے ہسدے وسدے رہو" 

ہم کھانا پکنے کا انتظار کرتے کرتے یوں گم ہوئے کہ سب دھندلا نظر آنے لگا۔

Comments

Popular posts from this blog

جھوٹ

ضیاء الحق کی بڑی  سی تصویر نیلم دریا کے کنارے چلتی جا رہی ہے، اسطرح کہ خود اُسکی ننھی سی ٹانگیں نکل آئی ہوں۔ کشمیر لبریشن فرنٹ کے نعرے " کشمیر بنے گا خودمختار" سی ایم ایچ کی دیوار پر لکھے ہیں، جنھیں جنرل ضیاء کی تصویر بڑی نفرت کی نگاہ سے گھور رہی ہے۔  " کشمیر بنے گا ۔۔۔"  تصویر نے یوں نعرا لگایا جیسے اس کے گرد ایک جمِ غفیر ہو جو ببانگ دہل، جوابا نعرا لگا رہا ہو  " پاکستان"۔ افغن ٹی ہاوس کے بھدے سبز پینٹ کی پپڑیاں بس اکھڑنے کو ہیں، دیوار کے عین وسط میں یاسر عرافات کی تصویر  آویزاں ہے۔ اسد  اپنے باپ کی طرف دیکھتا ہے اور اسکا اشارہ ملتے ہی ہتھوڑی اور میخ اٹھا کر دیوار کی طرف بڑھتا ہے۔ چند منٹوں بعد ہی اب افغن ٹی ہاوس میں یاسر عرافات اور جنرل ضیاء دونوں ٹنگے ہیں۔ ٹی ہاوس کے ہر گاہک کو پتا ہے کہ یہودیوں اور لادینی روسیوں کو سروناش کرنے والے دو وردی پوش مجاہد افغن ٹی ہاوس میں رہتے ہیں۔ اسد تصویر لٹکاتے ہی فورا اس ڈبے کی طرف دوڑتا ہے جس میں رومی کی پُتلی ادھ موئی پڑی ہے۔  اسد کے ہاتھوں میں آتے ہی رومی کی مردہ پتلی میں جان پھونک دی...

zanhar

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں احمریں ہاتھ، مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون مردہ چڑیوں کے زنخداں، تانبے کی چیخیں، گرتے ہاتھی کی فغاں، (کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں) اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے سب کے سب بار دفینوں سے بہا ل...

تمہارا سایہ

تمہارا سایہ ابھی بھی ٹیبل کے اس پار مجھے گھور رہا ہے واپس آ جاؤ آؤ گیلی ریت پر لیٹ جائیں گے آؤ کچھوؤں کی پشت پر سمندر کی تہ میں موتی ڈھونڈیں گے وہ سپی کہاں رکھ دی تم نے جس کی قید میں ایک آنسو نے اس سمندر کا سپنا دیکھا تھا آؤ ہم پھر سے اسے ڈھونڈتے ہیں واپس آ جاؤ میں نے گھر کی ساری مکڑیاں مار دی ہیں ان کے جالے ہٹا دیے ہیں میں اب ان سے طلسمی کہانیاں نہیں سنتا نیم شب میں ان سے باتیں نہیں کرتا واپس آ جاؤ ہر شام آنسوؤں کی ایک کتاب لکھنے کا سوچتا ہوں رات کے آخری پہر تک اسے لکھتا ہوں پر صبح اٹھ کر دیکھتا ہوں تو اس کے صفحوں پر سمندری نمک کے علاؤہ کچھ نہیں پاتا میرے لفظ مٹ رہے ہیں واپس آ جاؤ چادریں صاف ہیں اور فرش چمکتے ہیں تمہاری پسندیدہ چاکلیٹ فرج میں لا رکھی ہے اور یہ بکھری کتابیں جن سے تم ہمیشہ چڑتی تھیں سب جلا دی ہیں یہ بک بک کرتے فلسفے اور میری زبان سے نکلتی قنوطی بکواس زبان کاٹ دوں؟ واپس آ جاؤ وہ بستر جہاں ہم دونوں لخت لیٹا کرتے تھے میری چتا ہے آؤ اسے جلتا دیکھو کیا اس آگ کو ہمیشہ جلنا ہے خامیاں، خرابیاں، بحثیں، سوال سوال در سوال وہ سب تو ابھی تک یہیں ہیں ناچتے ہیں میں بھی ناچ رہا ہوں میں...