Skip to main content

لم ‏دما

سلمان تین سال کی عمر میں سائیں سہیلی سرکار کے میلے پر نقلی سفید داڑھی پہن کر کتنا خوش تھا۔ ست ربٹیا گیند ہوا میں اچھالتے اس نے کب سوچا ہو گا کہ 12 سال بعد وہ ایک چارپائی سے بندھا اس شام کو یاد کر کے رو رہا ہوگا۔
سلمان کے باپ کو مرے پانچ سال ہو چکے تھے۔ زلزلے میں اس اکیلے کا خاندان غارت نہ ہوا تھا، نجانے کتنے خاندانوں کی دنیا الٹ پُلٹ گئی تھی۔ پہ دنیا کہ ہے ہی دُھند کا پسارا، سو چند لمحوں میں سب برباد ہوا۔ سلمان کے باپ کو، جو کسی ڈاکٹر کے ہاں کمپوڈر کا کام کر کے اچھے پیسے کما لیتا تھا، زلزلہ نگل گیا اور یوں سلمان یتیم ہو گیا۔ ماں اور بہن کو کون پالتا سو سلمان 12 سال کی عمر سے نوکری پر جانے لگا۔ مظفرآباد کے گھر گھر جا کر صاف صفائی ، کھانا پکانا،  استری جیسے گھر کے چھوٹے چھوٹےسارے کام کرتا۔ چکن کڑھائی تو ایسی کھڑی کھڑی بناتا کہ لوگ کبھی انگلیاں چاٹتے کبھی انگلیاں کاٹتے۔ 
 
 سلمان جیسے جیسے بڑا ہو رہا تھا اس کے سبھاؤ میں زنخوں والی مٹک چٹک آنے لگی تھی۔  ہاتھ تھے کہ ہوا میں لہکتی ڈاریں، کمر تھی کہ مور کی مانند غمزہ دکھاتی۔ اسے اپنا آپ باقیوں سے مختلف محسوس ہوتا۔  اس کا یہ احساس روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ 
 
 اسے یاد تھا کہ  شوکت صاحب کے بیٹے سعدی کو کائی جمی سیم زدہ دیوار پر رینگتی سرمئی روپا مچھلی کو اپنی ائیر گن سے گرانے کا بہت شوق تھا۔ سعدی آخری وقت تک روپا مچھلی کو کافی اوپر تک پہنچنے دیتا اور  پھر گھوڑا دبا دیتا۔ بندوق سے نکلتی ہوا سے ان روپا مچھلیوں کی ساری محنت غارت ہو جاتی۔ وہ نیچے گر جاتیں اور سعدی ہنسنے لگاتا۔ سلمان سعدی کی بندوق کو پکڑنا چاہتا تھا۔ دیکھے تو سہی کہ وہ  کتنا بانکا لگتا ہے اس بندوق کے ساتھ۔ ایک روز شوکت صاحب کے خانوادے میں شادی تھی سب لوگ تیار ہو کر جانے لگے۔ شوکت صاحب کے کپڑے استری ہونا باقی تھے، ابھی تو ہانڈی کڑچھی سے بمشکل جان چُھٹی تھی۔  شوکت صاحب سلمان کے پاس آئے اور کہنے لگے
 " پتر کام ابھی  باقی ہے تو آرام سے کر، جب ہو جائے تو  آگے  سے کنڈی اڑیس کے پچھلے دروزہ سے نکل جانا۔ پر دروازے کو جاتے ہوئے بھیڑنا ضرور۔ اینوے کوئی جانور، پرندہ نہ گھس جائے"
 سلمان نے خاموشی سے سر ہلایا اور استری کے ٹیبل کی طرف بڑھا۔ جہاں کپڑوں کا کھلیان اس کا انتظار کر رہا تھا۔   اس نے ایک کے بعد دوسرا شلوار قمیض کا جوڑا استری کرنا شروع کر دیا۔  شوکت صاحب، انکی بیوی اور بچہ تینوں ہی تیار ہو کر اپنی نئی مہران میں بیٹھے اور سنگم ہوٹل چلے گیے جہاں شادی کی شادمانیاں ان کی راہ تک رہی تھیں۔ سلمان کو  قریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد استری کرنے سے فراغت ملی۔ وہ گھر سے جانے لگا تو اس کے مغز میں کیڑا کلبلایا۔ وہ سعدی کے کمرے میں گیا اور اسکی ایئر گن کو اٹھا لایا، جو عین سٹڈی ٹیبل کے ساتھ پڑی تھی۔ مغرب کا وقت تھا وہ باہر گیا تو  اودے شفق  پر اسے  تیتر، کہگھیاں، پیل وارو، نیل کنٹھ، سونڑاں پیتھا سب اپنے گھروں  کو جاتے  دکھائی دیے۔  پر سلمان تو فقط سعدی کی ریس کرنا چاہتا تھا۔ اس  نے ائیر گن کو کندھے کے ساتھ اٹکایا اور بڑی لچکیلی ادا سے ٹیڑھی آنکھ کی اور دیوار پر چڑھتی  ایک روپا مچھلی کا نشانہ باندھا۔ گن پہلے ہی سے لوڈڈ تھی، ایک چھوٹا سا دھماکا ہوا اور روپا مچھلی کے اسی آن پرخچے اڑ گئے۔ سلمان بھونچکا ہو کر دیوار کو دیکھتا رہا جہاں ایک چھوٹا سا کھڈا بن گیا تھا۔ وہ واپس برآمدے سے ہوتا ہوا سعدی  کے کمرے کی طرف دوڑا اور اس کی بندوق وہیں چھوڑ کرپچھلے دروازے سے نکل گیا۔ دل کی دھک دھک نے یہ تو بھلا ہی دیا کہ پیچھے کا دروزہ اچھی طرح بند نہ ہوتا تھا اور تھوڑی ہوا چلے تو اس کے پاٹ فورا کھل جاتے تھے۔  پر اپنی چوری پکڑی جانے کے ڈر سے  سلمان کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ اس نے دروازہ ٹھیلا اور گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ رات کو تھوڑے ہوش بجا ہوئے تو سوچنے لگا کہ شوکت صاحب نے سعدی کو ائیر گن میں چھرے ڈالنے کی تو کبھی اجازت نہ دی تھی، تو یہ چھرا بندوق میں کیا کر رہا تھا۔ شوکت صاحب تو بڑے رحم دل انسان ہیں۔ ہمیشہ پرندوں کی باتیں کرتے ہیں۔ کسی جاندار کو ائیرگن سے مارنا تو ان کے نزدیک بہت ہی نیچ ہرکت ہے۔ آخر اس نے سوچا کہ شاید یہ سعدی کی ہی شرارت ہو گی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔  نئی صبح آئی تو سلمان سب بھول بھال کر پھر کام میں جت گیا۔ یوں ہی صبح شام گزرتے رہے۔ 
شوکت صاحب کے گھر گیا تو کہنے لگے
" پتر تو نے اس دن پچھلا دروازہ صحیح طرح بند نہ کیا"
 
یہ سنتے ہی سلمان کو اپنی نبض میں بجلی کی سرعت محسوس ہوئی۔  
"پر کمال ہو گیا ایک بھولا بھٹکا سفید لَم دُمّا گھر میں گھس آیا۔ کیا خوبصورت پرندہ ہے۔ آ تجھے دکھاؤں۔" 
یہ پیاری لال چونچ، سر گاڑھا آبی، پر آسمانی نیلے، پیٹ سفید، اور یہ لمبی دم کہ جس کی وجہ سے اسے لَم دُمّا کہتے ہیں۔ اگر عنقا اصل میں ہوتا تو ایسا ہوتا۔ سلمان کی جان میں جان آئی وہ مسکرانے لگا۔
" تھوڑا زخمی تھا۔ اب بہتر معلوم ہوتا ہے۔"
 شوکت صاحب اسے باہر لے گئے اور اڑا دیا۔ اب دونوں آسمان میں اڑتے سفید لَم دُمے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ شوکت صاحب  نے سلمان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور برآمدے سے ہوتے گھر واپس آ گئے۔ کہنے لگے "آبادی کی اس بہتات میں اب ایسا پرندہ  شاز و نادر ہی نظر آتا ہے۔ کیسے وہ زمانے تھے جب مظفرآباد میں معمورے تھوڑے تھے اور پیڑ زیادہ۔ رنگ رنگ کے پرندے، رنگ رنگ کے حشرات تھے اس بہشت زار میں۔ "
 سلمان کو شوکت صاحب کی شخصیت میں ایک عجیب سی کشش محسوس ہوئی۔ ایسی کشش کہ اس نے پہلے محسوس نہ کی تھی۔ وہ آزاد کشمیر یونیورسٹی میں اورنیتھولوجی کے پروفیسر تھے اور مظفرآباد کے پرندوں پر تحقیق کر رہے تھے۔  چہیلا بانڈی جا کر ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر پرندوں کا اپنی کالی جرمن دور بین سے نظارہ کیا کرتے تھے۔ عام طور پر جب وہ پرندوں کی تحقیق پر نکلتے تو کیمرا، دور بین، کاغذات وغیرہ سب لے کر جانا پڑتا۔ شوکت صاحب سلمان کو اس دوران اپنے ساتھ مددگار کے طور پر لے جاتے۔ سلمان خوشی خوشی سب کام چھوڑ کر ان کے ساتھ ہو لیتا۔ شوکت صاحب سے اسے ایک عجیب سی انسیت کا احساس ہونے لگا تھا۔ ایک ایسی انسیت کا جسے زبان سے بولا جاتا تو شاید پھر زلزلہ آ جاتا۔ خدا جانتا تھا کہ زلزلے سوچوں کا نتیجہ ہیں یا زمین کے نیچے ٹیٹونک پلیٹیں ایسی سوچیں پیدا کرتی ہیں۔ یا یہ دونوں ہی باتیں جھوٹی ہوں، اسے کیا معلوم تھا۔ 
 
کچھ عرصہ گزرا تو شوکت صاحب کا اعتبار سلمان پر  اور بھی پختہ ہو گیا۔ اب کوئی خوشی غمی ہوتی تو سلمان کو گھر پر اکیلا چھوڑ جاتے۔

 شوکت صاحب کے سسرال والوں میں سے کسی کی شادی اسلام آباد میں ہونا طے پائی تھی اور وہ بیوی، بچے سمیت وہاں جانے والے تھے۔ سلمان کو انھوں نے بلا بھیجا۔ سلمان ہنسی خوشی گھر کی رکھوالی کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ شوکت صاحب نے اسے چابی پکڑائی اور اسلام آباد چلے گئے۔  سلمان وقت کاٹنے کے لئے صاف صفائی میں جت گیا۔ صفائی ستھرائی سے فارغ ہو کر ، کپڑے استری کرنے میں لگ گیا۔ دو  دن میں سب کام مکمل ہو گئے۔ شوکت صاحب نے ولیمے میں شرکت کر کے آنا تھا۔ سلمان کے پاس اب کوئی کام نہ بچا تھا۔ اتنے میں سلمان کے مغز کا کیڑا پھر کلبلانے لگا۔
 
 انھیں آنے میں 5 گھنٹے باقی ہیں کیوں نہ وہ شوکت صاحب کی ریس میں چہیلا بانڈی جا کر پرندوں کا دوربین سے نظارہ کرے۔
  
 یہ سوچتے ہی وہ شوکت صاحب کے کمرے میں گیا اور دراز سے ان کی جرمن دوربین نکالی اور گھر بند کر کے چہیلا بانڈی چلا گیا۔ ٹیلے پر کھڑے ہو کر دور بین کی آنکھ سے دیکھنے لگا۔ وہ دور  کہگھیاں درخت میں چھپی بیٹھی تھیں۔ وہ جھاڑ میں  تیتروں کا ڈیرا تھا۔ وہ پیل وارو چہچاتا تھا، وہ  نیل کنٹھ کا جوڑا ایک دوجے سے اٹھکیلیاں کرتا تھا۔ وہ دور ٹُکٹُکا درختوں پر ٹُک ٹُک کر رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بھی ایک پروفیسر ہے ۔ یہ سوچ دل میں آتے ہی وہ ہنسنے لگا اور شوکت صاحب کی چال ڈھال کی نقل کرنے لگا۔  وہ آواز موٹی کر کے کہنے لگا 
" پتر یہ جو پیلے والا کوے کی طرح  دکھتا ہے پیل وارو ہے"  
"یہ جو آسمانی نیلے رنگ کی چڑیا ہے نیل کنٹھ ہے"
" آبادی کی اس بہتات میں اب لَم دُمّے جیسا  پرندہ  شاز و نادر ہی نظر آتا ہے"

وہ اپنی ان حرکتوں پر اس زور سے قہقہے مار کر ہسنے لگا  کہ دور بین ہاتھ سے چھوٹی ، تو ٹیلے سے نیچے جا پڑی۔ سلمان ڈر گیا۔ اور جھاڑی جُھنڈوں سے ہوتا ہوا نیچے اترنے لگا۔ بڑے کشٹ بھوگے تو کہیں جا کر دور بین تک پہنچا۔ اٹھا کر دیکھا تو شیشہ ٹوٹا ہوا پایا۔ دل سے ایک طوفان اٹھا، خدایا اب کیا ہو گا۔ زار و قطار رونے لگا۔ خدایا کیا کروں ، کیا کروں ۔ اس پریشانی میں وہیں سر پکڑ کر بیٹھا رہا۔ اچانک خیال دل میں کوندا کہ گھر پہنچوں کہ وہ لوگ آتے ہی ہوں گے۔ پوٹلی جو ساتھ لایا تھا اس میں دور بین کو ڈالا، واپس ٹیلے تک پہنچا اور گھر کو دوڑ لگا دی۔ یہ ٹوٹی ہوئی دور بین کا شیشہ تو پورے مظفرآباد میں  کہیں سے ملنے کا نہ تھا۔ ڈر کے مارے پوٹلی کو دراز  میں رکھنے کے بجائے سٹور میں رضائیوں والی پیٹی کے پیچھے چھپا دیا۔ اور کپڑے جھاڑ کر خود کو کام میں مصروف کر لیا۔ شوکت صاحب کا خانوادہ واپس آیا تو سلمان کو چھٹی ملی۔
 وہ واپس گھر آیا اور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔ ماں پوچھتی رہی بیٹا کھانا کھائے گا، کہنے لگا بھوک نہیں ہے۔ اس کا اڑا رنگ دیکھ کر جب ماں نے کریدا تو اس نے سچ سچ بتا دیا۔ ماں بھی یہ سن کر فورا ڈر گئی۔ الہی خیر کر۔ ایک دو دن گزرے تو سلمان گھروں میں کام کرنے کو جاتا رہا پر جب شوکت صاحب کے گھر کی باری آئی تو اس نے بیماری کا بہانہ بنا لیا۔ اگلہ ہفتہ چڑھا تو شوکت صاحب کی کال آئی کہ فورا گھر آؤ کچھ ضروری کام ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا، وہ  ہیجان زدہ حالت میں شوکت صاحب کے گھر کی اور چل دیا۔ دل میں سوچتا رہا 
" لگ گیا پتہ انھیں، خدا جانے کیا ہو گا، میں صاف صاف منع کر دوں گا، میں کیا جانوں کیا ہوا ہے"

جب شوکت صاحب کے گھر پہنچا تو شوکت صاحب کی بیوی  اور اس کا بھائی جو پولیس میں انسپیکٹر تھا اس کا انتظار کر رہے تھے ۔ ابھی سلمان نے ڈرتے نحیف آواز میں سلام ہی کیا تھا کہ انسپیکٹر نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ 
"کدھر کی ہے تو نے دوربین؟ "
 سلمان کے اوسان بحال ہوئے ہی تھے کہ انسپیکٹر نے  ایک زناٹے دار ہاتھ دیا اور سلمان کی سماعت جاتی رہی۔ وہ روے جا رہا تھا۔
 میں نے کچھ نہیں کیا صاحب۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ 
 
وہ معافیاں مانگتا رہا پر انسپیکٹر کہاں سنتا تھا اس کی۔ دھکے دیتا ہوا ممٹی پر لے گیا۔ اور چارپائی  سیدھی کر کے سلمان کو اس پر بٹھا کر باندھ دیا۔ سو اب اس کے ہاتھ چارپائی کے نیچے یوں بندھے تھے کہ وہ اس سے اٹھ نہیں سکتا تھا۔   
 سعدی جو ابھی بھی دیوار پر کیڑے گرانے کا کھیل کھیل رہا تھا۔ تماشہ دیکھنے اوپر آ گیا۔ اس نے دیکھا کہ سلمان  چارپائی سے بندھا ہے اور اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اس کا دل بالکل ہی دھل گیا۔ اس کے ماموں نے سلمان کو مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔ پر سلمان تھا کہ بار بار کہہ رہا تھا ۔

صاحب میں نے چوری نہیں کی
صاحب میں نے چوری نہیں کی
صاحب میں چور نہیں ہوں

وہ جتنا انکار کرتا، اتنی اس کی جوتم پیزار ہوتی۔ انسپیکٹر بھی اسے مار مار کر تھک گیا تھا۔ اس نے سعدی کی طرف دیکھا تو فورا کہا

 جا اس کے لئے پانی لے کر آ۔
 
 اور خود نیچے چلا گیا۔  پانی دیتے ہوئے اس نے سلمان کی سرخ  آنکھوں کی طرف دیکھا، سلمان جس کے پورے جسم پر نیل پڑ گئے تھے۔
سعدی کے دل میں  سلمان کے ڈرے ہوئے چہرے کی تصویر  ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئی۔ پتنگ اڑانے کے لئے اس نے  اپنے پھپی زاد بھائی کی چرخڑی جو چوری کی تھی اسے ڈھونڈنے لگا۔ اور صحن میں ایک کھڈا کھود کر اسے دفنا آیا۔

 انسپیکٹر نے سلمان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اپنی بیلٹ اتار کر تیزی سے گھمانے لگا اور پھر اچانک ساکت ہو کر زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا۔ سلمان ضرب کے انتظار میں تیزی سے سانس لے رہا تھا۔  انسپیکٹر کو سلمان کو یوں ذھنی تکلیف دے کر نشاط محسوس ہو رہا تھا۔ ایک ڈیڈھ منٹ میں ہی سلمان نے رونا شروع کر دیا۔ وہ چارپائی پر بندھا سائیں سہیلی سرکار کے میلے میں جا پہنچا۔ جہاں اسے سفید داڈھی میں اپنا بچپن دکھائی دیا۔ وہ سوچنے لگا خوشی کیا ہے؟ کچھ نیا کرنے کی تلاش؟ آزادی کا احساس؟ محبت کرنے والوں کا ساتھ یا خطرے کے احساس سے دوری؟ اسی لمحے اس اندھیرے میں اسے محسوس ہوا کہ کوئی اس کے ہاتھ کھول رہا ہے۔ پھر انسپیکٹر کی آواز سنائی دی۔ 
"جا تو آزاد ہے !" 
" پر اپنا رستا اس پٹی کے ساتھ ڈھونڈھ" 

سلمان کسی مملوے کی طرح اٹھا اور بندھی آنکھوں سے رستہ تلاش کرتے دیواروں کھڑکیوں میں ٹکریں مارنے لگا۔ اور پھر دھڑام سے سیڑھیوں سے نیچے گرا۔ انسپکٹر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ 
نیچے گیا اور اپنے طاقت ور بازؤں سے اسے جکڑ کر پھر اوپر لے لایا اور چارپائی سے باندھ دیا۔ 

شوکت صاحب اوپر آئے تو سلمان کی یہ حالت دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ خدایا کتنا ظالم ہے یہ شخص۔ اس کی رسیاں کھولنے لگے۔ اور سلمان کو چمکار کر کہنے لگے۔

"پتر دوربین جہاں رکھی تھی، وہاں اب موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے میں نے ہی کہیں رکھ دی ہو۔ تو خود  ڈھوندھ لے گھر میں، شاید تجھے مل جائے"

انسپیکٹر اور شوکت صاحب باہر کھڑے انتظار کرتے رہے۔ سلمان ادھر ادھر ڈھونڈنے کا سانگ رچاتا رہا۔ آخر پیٹی کے پیچھے پڑی پوٹلی سے جا کر دور بین نکالی اور شوکت صاحب کو پکڑا دی۔ 

شوکت صاحب شرم سے پسیج گئے۔ انھوں نے دور بین چھوڑ کر سلمان سے بہت معافی مانگی۔ پر وہ خاموشی سے لنگڑاتا ہوا گھر کی طرف چل دیا۔ اگر وہ لَم دُمّا ہوتا تو اپنے پر پھیلاتا اور ہمیشہ کے لیے یہ شہر چھوڑ کر دور کسی اندیکھے دیس کو ہجرت کر جاتا۔ پر کل اسے بشارت صاحب کے گھر جانا تھا۔ جنھوں نے اسکی میٹرک کی فیس دینے کا وعدہ کیا تھا۔




Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے