Skip to main content

meningitis


یہ عجیب خط ہے کہ میں ہی اسے لکھ رہا ہوں اور میں ہی اسے پڑھے جاتا ہوں، تسبیح کی طرح، صبح شام۔ میں نے ضرورت سے زیادہ چشموں سے باتیں کی ہیں، قطروں کی ہنسی کو چھوا ہے، سرسراتی ہوا کی اداسی کو گھنٹوں چکھا ہے۔ میں سچ سن چکا، وہ سچ جو قبروں میں مقید مُردوں کو سنائے جاتے ہیں۔ وہ سچ جن کی تجلی زندوں کے حواسِ سامعہ کو سرمہ کر دے۔

تو پھر یہ سچ مجھے کیوں سنائے جا رہے ہیں؟ میں تو زندہ ہوں___کیا میں زندہ ہوں؟؟

میں گر رہا تھا، کالے بادلوں سے بارش کے قطروں کے ساتھ۔ میں بھی ایک قطرہ تھا،خون کا، ایک لوتھڑا، ایک جنین، بچہ دانی کی تلاش میں۔ مگر جس بچہ دانی میں مجھے جگہ ملی وہ خاردار تاروں سے گِھری تھی- جس کے باہر بندوق بردار لمبے قد اور داڑھی والے، پٹے رکھے پہرہ دار، پہرہ دے رہے تھے۔ یاداشت کے خالی رخنے تخلیق کیے جا رہے ہیں، جہاں چالیس سال بعد میں اپنی تخلیق کے بوسیدہ پنے کھودنے آوں گا۔ دل میں خدا کا وہم پرویا جا رہا تھا جہاں چالیس سال بعد خدا کی جگہ ایک شگاف ہو گا، کالے بادلوں میں گِھرا۔۔ میں زبانوں کےاس بدنصیب شہر میں پیدا ہوا جہاں چپ کا دریا بہتا تھا۔

"حقیقت وہ شام ہے جس کا ڈوبتا سورج گگن کے چہرے پر اپنی سرخ پیک تھوک کر نہاں ہوتا ہے۔

تف ہے تمہارے پندار کی پنہاں داریوں پر ، اپنی خام خرد کے خُنخُنے سن رہے ہو؟ سورج ڈوبا نہیں کرتے، تم ڈوب رہے ہو!" میں نے سوچا۔

سک سک سک

ادھورے کمرے کا پنکھا، جو خراماں خراماں چلے جا رہا تھا، جس کے پروں پر سرخ ساڑھی پہنے ایک عورت کا خاکہ بنا تھا، رک گیا اور وہ تین حصوں میں بٹ گیا۔ میں جو خاموشی سے چارپائی پر لیٹا اپنی تخلیق کے سحر میں محصور تھا، بجلی جاتے ہی دنیا میں واپس آگیا تھا۔  میرے کمرے کی دیواروں پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر آویزاں تھیں جو میں نے پچھلے کئی سالوں میں کھینچی تھیں۔

ہا! بے معنی تصاویر!

اب مجھے اُن سے کوئی لگاو باقی نہیں رہا  تھا۔ میں انکا انتا عادی ہو چکا تھا کہ انکے فریمز کے اندر سےدیوار کے اُکھڑتے پینٹ کو دیکھ سکتا تھا۔

بلڈ پریشر مشین کا پارہ جو ہر رات میری شریانوں کی تغیانی پر کان دھرتا، چڑھے جاتا اور سرگوشی کرتا کہ مورکھ ! سوالوں سے کہہ دے رات کی چادر اوڑھ کر سو جائیں یا انہیں کسی پیٹی میں بند رکھ ،اور مغز میں فروعی عادتوں کی غلاظت بھر!

مانا کہ زندگی اور اس سے متصل تمام محرکات بے معنی ہیں، اس شعبدہ بازی کو شیڈو باکسنگ سمجھ، تیرا خرخشہ، تیری ہی خصومت___ تو خود تجھی کو لڑنا ہے۔ لال بوشٹیں پہنے یہ بود اور نبود کے بونے ہمیشہ ناچتے رہیں گے ___ انہیں صرفِ نظر کر دے۔

خفقان کسی نہنگ کی مانند ساحل پر اس کے محزون دل کو نوچ کھانے میں مصروف تھا-

جبلت، خصلت کیسے بھونڑے الفاظ ہیں میں نے سوچا۔ پر حقیقت جتنی بھونڈی ہو اتنی ہی یقینی ہوتی ہے۔ میں زندگی کے تجربے کو پھوکل دلائل سے بھر دینا چاھتا تھا۔ پر زندگی کے ارادے جسے شوپنھار نے "ول آف لائف" کہا تھا اس سے کہیں زیادہ پختہ تھے۔

"زندگی ایک پچھل پیری ہے" میں بڑبڑانے لگا،

"جو روحیں نگلنے پر قادر ہے۔"

"ہم بھاگ رہے ہیں اور بے لاگ بھاگ رہے ہیں، شورہ پشت بونے! گمبدِ خِضرا کے برجوں کو تسخیر کرنے کےخواہاں اور خود کی رمیدگی سے مُسَخّر ___ پِپڑی جمے ہونٹوں پر لالیاں لیپنے والے، سوختہ گالوں پر غازے تھوپنے والے___ تف ہے ہم پر "میں ہنسنے لگا۔

ڈاکٹر عالیہ مننجائٹس کے مرض میں مبتلا مجھے غور سے دیکھ رہی تھی۔ میں مسکراتا، بڑبڑاتا مریض اس کے لئے بو العجب نہ ہوتا اگر میں نے اپنی بیوی کی ساڑھی پہن نہ رکھی ہوتی، اپنے پھٹے ہونٹوں پر اسکی لپسٹک لیپ نہ رکھی ہوتی۔ جلال لالا جرنیٹر چلا آیا تھا۔اور پنکھا گھومنا شروع ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھیں بھی۔

وہ نظمیں جو کبھی نوجوانی میں میں نے لکھیں، سٹیپٹوکوکس کے جرثوموں کے ساتھ برہنہ ناچ ناچ رہی تھیں۔ ڈاکٹر عالیہ نے جلال لالا کو میرے سر اور گٹنوں کو جوڑ کر سختی سے پکڑنے کو کہا۔ اور ایسا کرتے ہی سرنج میری کی ریڑھ کی ہڈّی کے مُہروں میں انجیٹ کر دی، پِسٹَن کھینچتے ہی رقص کناں جرثوموں کا ایک غول ٹیکے میں بھر گیا۔

"ترے بغیر مری نیند کے صفحوں پر،
خالی قلم سے خاموش نظمیں لکھی گئیں
نِب میری کھال کی پپڑیاں اتارتی ہے
جیسے اُکھڑتے پینٹ سے لیپی دیواریں
کمرے میں ایک خاص سڑانھد ، بھر دیتی ہے
میرے خوابوں کے سیم زدہ کمرے بھی
ایسی ہی باس سے بھرے ہیں"

جرثومے ابھی بھی گنگنا رہے تھے۔

ڈاکٹر عالیہ نے جلال لالا کو بتایا کہ بیماری کی علامتیں گردن توڑ بخار کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اور یہ بخار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

جلال لالا نے کھنگارتے ہوئے کہا :

" ڈاکٹر صاحب برا نہ مانیں تو عرض کروں، ہمارے والد بہت بڑے حکیم تھے، وہ اخوینی البخاری صاحب کی کتاب کا ذکر کرتے تھے، سنا تو ہو گا بخاری صاحب کے بارے آپ نے ؟

بڑے حکیم ہوئے ہیں وہ،

مالیخولیا کے بارے میں بخاری صاحب کی کتاب میں ذکر ہے بابا کہتے تھے ،

ایک ان دیکھا ڈر، ایسے سوالوں کا دل میں اٹھنا کہ جن کے جواب نہ ہوں، خود پہ ہنسنا، خود پہ رونا، بے وجہ بڑبڑانا۔ یہ سب تو ہے ان کو، ورنہ کون پہنتا ہے اپنی بیوی کی ساڑھی، لپ اسٹک لگائی ہے دیکھو "

اور اس نے رونا شروع کر دیا۔

وہ میرے پاس گیا اور اس کے ہونٹوں سے لپ اسٹک اتارنے لگا۔ عالیہ نے بوڑھے جلال کی بات سنی ان سنی کر دی۔

"کل تک ٹسٹ کے رزلٹ آ جائیں گے۔ میں انٹی بائٹک لکھ رہی ہوں فوراً لائیے اگر صبح تک حالت بہتر نہ ہو تو فوراً ہسپتال داخل کیجیے۔

میں صبح راونڈ پر ہی ہوں گی۔ مجھ سے آ کہ ملیے گا۔ میں بتاوں گی آگے کیا کرنا ہے۔ "

یہ کہہ کر عالیہ نے اپنی سٹیتھو سکوپ اٹھائی اور باہر کی طرف چل دی۔ خاموشی کا سفید شور، میرے  کانوں کے پردوں کو ہزاروں ٹڈیوں کی ماند کتر رہا تھا کہ اخیونی البخاری نے میرے  کان میں سرگوشی کی "السوداء"، " السوداء"، "السوداء"۔

اورمجھ سودائی کی تلی سے بلیک بائل کا اس قدر اِخراج ہوا کہ ایک اِستخر بن گیا۔ اور وہ اس بلیک بائل میں ڈوبنے لگا۔ ابن سینا کی کتاب " القانون فی الطب " کے صفحے خود کو جَگَتی چھند میں بڑبڑانے لگے۔ چھند کے 48 اکشر میری ناف سے نئی ناڑ بن رہے تھے میں ایک جنین بن گیا تھا۔ ایک فیٹس۔

کہ پھر اچانک ___ لوگوں کے قدموں کی آوازیں طبلے کی تال بن گئیں۔

تا، کی، تَا، کی، تَا، دِھن، گِھنا، تُم۔

راگ للت ہسپتال کی اس صبح کے کشکول میں ریزگاری بھرنے لگا۔

ایک رکی ہوئی چیخ، ہوا میں معلق تھی جیسے سیاہی کی بوند پانی میں لٹک رہی ہو۔ نگار نے، جس کے دائیں گال پر ایک کالا آنسو چمک رہا تھا، زور سے کہا:

"میں جا رہی ہوں "

اور اس کے جاتے ہی میں خاموش ہو گیا۔ یوں میں خاموشی کےخالی گلاس میں مقید تھا، مقید ہوں۔  وائن کی بوتل آدھی ہو چکی تھی اور میں شعر بڑبڑا رہا تھا۔

اس کو کیسے نکالیے دل سے
ہم کہ دل ہی نکال بیٹھے ہیں
دل سے مردے کے خون پینے کو
کچھ گِدھوں سے ملال بیٹھے ہیں

محبتیں بھلائی جا سکتی ہوں گی، عادتیں نوچ کھاتی ہیں۔ ہم خود کو محبتوں اور عادتوں کے رخنوں میں بھرتے ہیں۔ اور ایک دفعہ یہ رخنے بھر جائیں تو ان سے نکلنا محال۔

میں بڑبڑانے لگا

" وائے عادتیں !! اور حیف ان کے رخنے !!جن کی غلام گردشوں میں آدمزاد برہنہ مقید ہیں۔"

"کیا بکتے ہو، کیوں بکھارتے ہو۔۔۔ خاموش!"
"تمام یاوه گویان ساکت باشید ! 
تمام ہرزہ گویان خفه باشید !"

میرے لئے عالیہ کی آواز کسی شور سے زیادہ نہیں تھی۔ میری تصویروں کی طرح، جن کے اندر سے میں اُکھڑتے پینٹ کی پپڑیاں دیکھ سکتا تھا۔ یہی نہیں میں اپنی لال آنکھوں سے کئی سال آگے کئی سال پیچھے دیکھنے پر مقدور تھا۔

"خاموش!!! خاموش!! سفید شور خاموش!!!"

میں نے کئی سال بعد یا کئی سال پہلے پر نظر کی، تو دیکھا کہ ایک زمیں دوز غار سے بارہ سنگے یکے بعد دیگرے نکل رہے ہیں۔ اور پھر میں خود نکلتا ہوں۔ میں خود ایک بارہ سنگا بن چکا ہوں۔ اچانک ایک ہیجانی گرم چیخ میرے دل میں داغ دی جاتی ہے، میں کراہ رہا ہوں۔ لہو آہستہ آہستہ میرے پیٹ سے نکل رہا ہے اور اسکے نافہ سے نکلتی مُشک سارے میں پھیل رہی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے