Skip to main content

zanhar


چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے
ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو
سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے
لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر
لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد
میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں
وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر
غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں
مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں

سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال
چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو
رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں
لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو
تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے
زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا
سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا
چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے
پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے
سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے
دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں
احمریں ہاتھ،
مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون
مردہ چڑیوں کے زنخداں،
تانبے کی چیخیں،
گرتے ہاتھی کی فغاں،
(کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں)
اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے
سب کے سب بار دفینوں سے بہا لے جایئں
جن کو غاروں کے حزیں کشف نے تصویر کیا
وقت کی سوئی کی تکرار نے تعمیر کیا

Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے