Skip to main content

معدومیت کا مکالمہ

میں : گوشت میں لتھڑی ہوئی اس قوم کے حیلوں ، بہانوں سا ہے یہ گرداب ،
کہ جس میں ہم اور تم فنا ہونے کو ہیں
یا فنا ہو بھی چکے ؟

وہ : فنا ہو رہے ہیں (سرگوشی)

تم : مگر جو قمقمیں جلتی ہیں بھجتی ہیں ، یہ آرزوئیں ہی تو ہیں
امیدیں ہیں صبح نو کی

میں : امیدیں ، آرزوئیں ، خواب! ہاہ !!
ایک اور حیلہ بہانہ
ہم جل رہے ہیں !
سنا تم نے ؟
ہم جل رہے ہیں
یہ قمقمیں نہیں ہیں .. میری تمہاری وردیاں ہیں
سونگھو !!
تمہیں پکتے گوشت کی بدبو نہیں آتی
یہ ہمارا ہے ! میرا تمہارا گوشت
سونگھو!!

تم : مجھے نزلہ ہے چند دن سے ،
کسی بدبو کی خوشبو کی رسائی ممکن نہیں مجھے تک
مگر میں دیکھ سکتا ہوں

میں : تو دیکھو نا !!!
یہ سر کٹے بچوں کے ریلے
یہ نیلی موچھیں
یہ بغلوں میں،مسانوں پے بال
یہی دیکھ کر تو انہوں نے کہا تھا ، یہ بچے نہیں ہیں
یہی دیکھ کر ،

انہوں نے اپنے ایمانِ محکم کو اور پختہ کیا تھا

تم : ہاں ، انہوں نے کہا تھا یہ بچے نہیں ہیں

میں : تو کیوں امیدوں کی رجا، کی بات کرتے ہو

ابھی خون ابلے گا ،
درد دھواں بن کر اس آشفتہ سر سے نکلے گا تو سنو گے ؟

تم : میں سن تو رہا ہوں

میں : مجھے مت سنو !
یہ چیخیں سنو !!

تم : یہ مدھم سی چیخیں ؟

میں : یہ مدھم کہاں ہیں ؟
قیامت کا صور پھونکا جا رہا ہے
اور تم کہ رہے ہو ، یہ مدھم سی چیخیں ؟
بموں کے چھرے اُستخوانوں میں ،
سروں کے کاسوں میں چھید کررہے ہیں
ہم جل رہے ہیں

سنا تم نے
فنا ہو رہے ہیں

تم : اس گرداب ، اس حیلے بہانوں کے گرداب میں ،
جہاں ہم فنا ہو رہے تھے

فنا ہو چکے ہیں
Image: mike el-nazly

Comments

Popular posts from this blog

zanhar

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں احمریں ہاتھ، مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون مردہ چڑیوں کے زنخداں، تانبے کی چیخیں، گرتے ہاتھی کی فغاں، (کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں) اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے سب کے سب بار دفینوں سے بہا ل...

meningitis

یہ عجیب خط ہے کہ میں ہی اسے لکھ رہا ہوں اور میں ہی اسے پڑھے جاتا ہوں، تسبیح کی طرح، صبح شام۔ میں نے ضرورت سے زیادہ چشموں سے باتیں کی ہیں، قطروں کی ہنسی کو چھوا ہے، سرسراتی ہوا کی اداسی کو گھنٹوں چکھا ہے۔ میں سچ سن چکا، وہ سچ جو قبروں میں مقید مُردوں کو سنائے جاتے ہیں۔ وہ سچ جن کی تجلی زندوں کے حواسِ سامعہ کو سرمہ کر دے۔ تو پھر یہ سچ مجھے کیوں سنائے جا رہے ہیں؟ میں تو زندہ ہوں___کیا میں زندہ ہوں؟؟ میں گر رہا تھا، کالے بادلوں سے بارش کے قطروں کے ساتھ۔ میں بھی ایک قطرہ تھا،خون کا، ایک لوتھڑا، ایک جنین، بچہ دانی کی تلاش میں۔ مگر جس بچہ دانی میں مجھے جگہ ملی وہ خاردار تاروں سے گِھری تھی- جس کے باہر بندوق بردار لمبے قد اور داڑھی والے، پٹے رکھے پہرہ دار، پہرہ دے رہے تھے۔ یاداشت کے خالی رخنے تخلیق کیے جا رہے ہیں، جہاں چالیس سال بعد میں اپنی تخلیق کے بوسیدہ پنے کھودنے آوں گا۔ دل میں خدا کا وہم پرویا جا رہا تھا جہاں چالیس سال بعد خدا کی جگہ ایک شگاف ہو گا، کالے بادلوں میں گِھرا۔۔ میں زبانوں کےاس بدنصیب شہر میں پیدا ہوا جہاں چپ کا دریا بہتا تھا۔ "حقیقت وہ شام ہے جس کا ڈوبتا سو...