Skip to main content

رینٹ

کلچر تیری ۔۔۔
(انسان ایک سوشل اینیمل ہے)
بس کرو!
(تمہارا جین خود غرض ہے)
بس کرو!
(تنہائی کے اس ہاویہ سے ڈرو جس کا ایندھن صرف انسانوں کے دل ہیں پتھر نہیں )
بس کرو!
فلسفے بگھارتے، فروعی بکواس کرتے کب تک گزرے گی ۔۔۔ ؟
بک بک بک بک
بس کرو!
اس کلچر کی لسی رڑکتے رہو
ہر بار سمیولیٹ کرو،
یوں کرنا ٹھیک ہے یا یوں
میں یہاں اِن جیسا ہو جاؤں؟
اور اب واپس پاکستان جاؤں تو اُن جیسا ہو جاؤں؟
(وہ ہو پائے گی اُن جیسا؟
لبرل عورتیں قدامت پسندی کی پوشاک نہیں پہنا کرتیں
پہن لے تو کیا ہرج ہے؟
میرے زخمی میل شاونسٹ بندر کو ملہم لگا دے بس
پر کیوں کرے وہ ایسا
نہیں کر پائے گی)
بک بک بک بک
بس کرو
میں خود کون ہوں؟
شاید ایک بندر ہی ہوں جو
دو ایتھوس کا بنا،
رنگ برنگا،
پیوند لگا پیراہن پہن کر
نہ ادھر کا ہے نہ ادھر کا
(بندر ہوتا ہے یا کتا؟)
(میں)
کوئی درمیان کی چیز ۔۔۔
مجھے زنخوں پر بہت پیار آ رہا ہے جو میری طرح
دو شناختوں کے درمیان ناچ رہے ہیں
میں تو فقط ہونا چاہتا تھا، نہ ایسا نہ ویسا
فقط ہونا چاہتا ہوں!
ایک آشوب جہاں ، یا ہنگامہ قیامت کا
شاید دھڑکنیں ہوں میری
یا میرا کوئی نیا فتور
یا فقط شور
سیمیولیٹڈ شور
بس کرو!

Comments

Popular posts from this blog

zanhar

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں احمریں ہاتھ، مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون مردہ چڑیوں کے زنخداں، تانبے کی چیخیں، گرتے ہاتھی کی فغاں، (کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں) اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے سب کے سب بار دفینوں سے بہا ل...

meningitis

یہ عجیب خط ہے کہ میں ہی اسے لکھ رہا ہوں اور میں ہی اسے پڑھے جاتا ہوں، تسبیح کی طرح، صبح شام۔ میں نے ضرورت سے زیادہ چشموں سے باتیں کی ہیں، قطروں کی ہنسی کو چھوا ہے، سرسراتی ہوا کی اداسی کو گھنٹوں چکھا ہے۔ میں سچ سن چکا، وہ سچ جو قبروں میں مقید مُردوں کو سنائے جاتے ہیں۔ وہ سچ جن کی تجلی زندوں کے حواسِ سامعہ کو سرمہ کر دے۔ تو پھر یہ سچ مجھے کیوں سنائے جا رہے ہیں؟ میں تو زندہ ہوں___کیا میں زندہ ہوں؟؟ میں گر رہا تھا، کالے بادلوں سے بارش کے قطروں کے ساتھ۔ میں بھی ایک قطرہ تھا،خون کا، ایک لوتھڑا، ایک جنین، بچہ دانی کی تلاش میں۔ مگر جس بچہ دانی میں مجھے جگہ ملی وہ خاردار تاروں سے گِھری تھی- جس کے باہر بندوق بردار لمبے قد اور داڑھی والے، پٹے رکھے پہرہ دار، پہرہ دے رہے تھے۔ یاداشت کے خالی رخنے تخلیق کیے جا رہے ہیں، جہاں چالیس سال بعد میں اپنی تخلیق کے بوسیدہ پنے کھودنے آوں گا۔ دل میں خدا کا وہم پرویا جا رہا تھا جہاں چالیس سال بعد خدا کی جگہ ایک شگاف ہو گا، کالے بادلوں میں گِھرا۔۔ میں زبانوں کےاس بدنصیب شہر میں پیدا ہوا جہاں چپ کا دریا بہتا تھا۔ "حقیقت وہ شام ہے جس کا ڈوبتا سو...