Skip to main content

اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی

 اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی

تو تم عام سی لڑکی نہیں رہو گی
میری سطریں سمندروں میں کود کر
تمہارے ناف پیالے کے لئے
زمرد کے ٹھنڈے پتھر جمع کریں گی
اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی
تو شہد کی مکھیاں
تمھارے پستان چومنے کی لو میں
گلابوں کے لوبھ سے آزاد ہو جائیں گی
اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو
تمھارے چہرے کی روشنی سے
عدم کے تاریک قریوں میں
رنگین کمانوں سے
خوابوں کے بان چلائے جائیں گے
اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو
پیڑوں کی انگلیاں
تمہاری آمد کی خوشی میں
ہوا کی تاروں سے سُر نکالتے
خود کو زخمی کر لیں گی
اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی
تو تمہاری کمر کے تیغے پر
لب اپنا آپ رکھ کر
خون کی پھواروں میں زندگی تلاش کریں گے
اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو
تمہارے کولہے کا تل
تمثیل کی کان بن جائے گا
غم جس کی یاد میں
نئے استعارے کھودنے وہاں آیا کرے گا
اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو
تمھارے کاکل کے مردہ سانپ
جنگ میں لڑتے
مجھ مردہ سپاہی کی جیب سے ملیں گے

Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے