Skip to main content

تمہارا سایہ

تمہارا سایہ ابھی بھی ٹیبل کے اس پار
مجھے گھور رہا ہے
واپس آ جاؤ
آؤ گیلی ریت پر لیٹ جائیں گے
آؤ کچھوؤں کی پشت پر سمندر کی
تہ میں موتی ڈھونڈیں گے
وہ سپی کہاں رکھ دی تم نے
جس کی قید میں ایک آنسو نے
اس سمندر کا سپنا دیکھا تھا
آؤ ہم پھر سے اسے ڈھونڈتے ہیں
واپس آ جاؤ
میں نے گھر کی ساری مکڑیاں مار دی ہیں
ان کے جالے ہٹا دیے ہیں
میں اب ان سے طلسمی کہانیاں نہیں سنتا
نیم شب میں ان سے باتیں نہیں کرتا
واپس آ جاؤ
ہر شام آنسوؤں کی ایک کتاب لکھنے کا سوچتا ہوں
رات کے آخری پہر تک اسے لکھتا ہوں
پر صبح اٹھ کر دیکھتا ہوں تو اس کے صفحوں پر سمندری نمک کے علاؤہ کچھ نہیں پاتا
میرے لفظ مٹ رہے ہیں
واپس آ جاؤ
چادریں صاف ہیں اور فرش چمکتے ہیں
تمہاری پسندیدہ چاکلیٹ فرج میں لا رکھی ہے
اور یہ بکھری کتابیں جن سے تم ہمیشہ چڑتی تھیں
سب جلا دی ہیں
یہ بک بک کرتے فلسفے
اور میری زبان سے نکلتی قنوطی بکواس
زبان کاٹ دوں؟
واپس آ جاؤ
وہ بستر جہاں ہم دونوں لخت لیٹا کرتے تھے
میری چتا ہے
آؤ اسے جلتا دیکھو
کیا اس آگ کو ہمیشہ جلنا ہے
خامیاں، خرابیاں، بحثیں، سوال
سوال در سوال
وہ سب تو ابھی تک یہیں ہیں
ناچتے ہیں
میں بھی ناچ رہا ہوں
میں بھی ایک سوال ہی تو ہوں شاید
پر میرے پاس اپنا کوئی جواب نہیں ہے
x

Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے