Skip to main content

کیا نقاد کا وجود ضروری ہے

از شمس الرحمان فاروقی میری زبانی

اس مقالہ میں فاروقی صاحب اوّلاً اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا یہ تصور کہ تخلیق و تنقید برابر ہیں واقعی درست ہے یا نہیں۔ اس کی توضیح کے لئے فاروقی صاحب چند مفروضوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ 

سب سے پہلے وہ اس سوال پر ہماری توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ آیا  در واقع تنقید کا کوئی ہم سر یا ہم سفر ہو سکتا ہے ۔  چند حضرات چونکہ تخلیق و تنقید کو ایک دوسرے کا ہم سفر یا ہم سر منوانے پر مصر ہیں شاید فارقی صاحب اس موازنہ کو غلط ثابت کرنے کی راہ نکال رہیں ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف لوگ یوں معترض ہیں کہ جن سے تخلیق بن نہیں پڑتی وہ تنقید کی دکان کھول لیتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو تنقید کو تخلیق کا ہمسر و ہم سفر کہانے پر مصر ہیں سو اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی مقالے یا مباحثہ میں فاروقی صاحب ان دو گروہوں میں سے کس کی بات کی حمایت کرتے ہیں یا کوئی تیسری راہ نکالتے ہیں۔ میری رائے میں اس کا مقصد صرف اور صرف مقالمے کا آغاز ہے (جو شاید اتنا اچھا آغاز نہیں بهرحال ۔۔۔ ) تا کہ قاری کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ دراصل تنقید کا مقام تخلیق سے کمتر ہی ہے۔ 

اب دوسرے پیراگراف میں فارقی صاحب اپنے اس  تیقن سے قاری کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ تخلیق کو تنقید سے افضل مانتے ہیں اور اس بات پر کسی احساس کمتری سے دوچار نہیں ہیں۔ وہ یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ تخلیق حرکی ہے یعنی جو زمانے کے ساتھ اپنے معنی و معنویت بدلتی ہے ( میں یہاں معنی و معنویت کے مابین تفاوت سمجھنے سے قاصر ہوں) جب کہ تنقید جامد ہے اور اس کے اصول اپنی جگہ ویسے ہی قائم رہتے ہیں۔ میں اس مفروضے پر متشکک ہوں کیوں کہ علم و فن کو ماپنے کی روش معاشرتی تبدیلیوں کہ ساتھ بدلتی ہے۔ کلاسیکی فن و ادب کے پیمانے جدیدیت یا  مابعد جدیدیت کے پیمانوں سے مختلف ہیں۔ بہرطور فارقی صاحب فرماتے ہیں کہ تنقید گرچہ ایک محدود کارگزاری ہے پر اس کے بغیر تخلیق کا بازار گرم نہیں رہ سکتا۔ بقولِ کولرج تنقید کا کام نئی تخلیقات کی خوبیوں کو نمایاں کرنا ہے جس سے تخلیق کار کی ہمت بندھے اور وہ تخلیق کی نئی راہیں کھولنے میں منہمک رہے، تنقید کی عدم موجودگی میں ایسی سب راہیں مسدود ہونے کا اندشہ ہے۔

اس کے بعد ایک سوال پر ایک صفحے کی بحث ہے کہ غالب و میر کے زمانے میں نقاد نہ ہونے کے باوجود عمدہ شاعری تخلیق کی جا رہی تھی پر اب نقاد تو بہت ہیں پر عمدہ شاعری شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔  جس پر ۶ نقاطی جواب دیا گیا ہے :
۱)  یہ اشرار دنیا میں آ چکے ہیں اور ان سے جان چھڑائی نہیں جا سکتی
۲)  پہلے زمانے میں بھی ان کا وجود تھا، یہ کہنا کے وہ پہلے موجود نہیں تھے غلط ہے۔ 
۳ٰ) ہر تخلیق کار خود ہی نقاد بھی ہوتا ہے۔
۴) نقطہ دوم پر دوبارہ چین و یونان کی مثال سے زور ڈالتے ہیں
۵) شاگرد و استاد کی روش دراصل نقاد و تخلیق کار کا ہی تو رشتہ ہے جو ہمارے ہاں قائم تھی۔
۶) سخن فہمی کے ساتھ اسکا مدلل و مربوط انداز میں اظہار ہر کسی کے بس کا روگ نہیں سو اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ شاید یہ آخری نقطہ بطور جواب سوال کنندہ کو دیا گیا ہے کہ نقاد اتنے بھی برے لوگ نہیں وہ تن تنہا اپنی دیوانگی میں ادب کی پرتوں کو بے حجاب کرنے میں لگے ہیں۔ 

یہاں فاروقی صاحب اس بات کا اصرار کرتے ہیں کہ نقاد کو اپنی محدودیت کا احساس ہونا لازمی ہے یعنی کہ وہ ہمیشہ معنی کو پوری طرح بےحجاب کرنے سے قاصر رہے گا۔ نقاد کو نہ اپنے مفروضوں کا غلام ہونا چاہیے  کہ ہر نا سمجھ آنے والا فن پارہ اس کے لئے مہمل بن جائے اور نہ ہی لاطائل (بے سود) انشا پرداز ہونا چاہیے کہ ہفوات بکنے لگے۔

پھر فرماتے ہیں کہ نقاد کو ایک ایسی روش اختیار کرنی ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار کا احاطہ کر سکے یعنی پورے ادب سے معاملہ کرنے کے لئے کشادہ نظری کا استعمال کر سکے ۔  
نقادوں کے وجود پر تنقید کی بڑی وجہ ان کی کم علمی و دوست نوازی تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہ وہ ادب کو صرف اپنی عینک سے دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کو سمجھنا ہو گا کہ ادب ایک تسلسل ہے اور اس تسلسل کے مختلف خانوں میں زیبا شناسی کے مختلف اصول کارفرما ہیں ۔ اگر یہ بات نہ سمجھی گئی تو تنقید کو اسی بری نگاہ سے دیکھا جاتا رہے گا۔


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

zanhar

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں احمریں ہاتھ، مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون مردہ چڑیوں کے زنخداں، تانبے کی چیخیں، گرتے ہاتھی کی فغاں، (کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں) اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے سب کے سب بار دفینوں سے بہا ل...

meningitis

یہ عجیب خط ہے کہ میں ہی اسے لکھ رہا ہوں اور میں ہی اسے پڑھے جاتا ہوں، تسبیح کی طرح، صبح شام۔ میں نے ضرورت سے زیادہ چشموں سے باتیں کی ہیں، قطروں کی ہنسی کو چھوا ہے، سرسراتی ہوا کی اداسی کو گھنٹوں چکھا ہے۔ میں سچ سن چکا، وہ سچ جو قبروں میں مقید مُردوں کو سنائے جاتے ہیں۔ وہ سچ جن کی تجلی زندوں کے حواسِ سامعہ کو سرمہ کر دے۔ تو پھر یہ سچ مجھے کیوں سنائے جا رہے ہیں؟ میں تو زندہ ہوں___کیا میں زندہ ہوں؟؟ میں گر رہا تھا، کالے بادلوں سے بارش کے قطروں کے ساتھ۔ میں بھی ایک قطرہ تھا،خون کا، ایک لوتھڑا، ایک جنین، بچہ دانی کی تلاش میں۔ مگر جس بچہ دانی میں مجھے جگہ ملی وہ خاردار تاروں سے گِھری تھی- جس کے باہر بندوق بردار لمبے قد اور داڑھی والے، پٹے رکھے پہرہ دار، پہرہ دے رہے تھے۔ یاداشت کے خالی رخنے تخلیق کیے جا رہے ہیں، جہاں چالیس سال بعد میں اپنی تخلیق کے بوسیدہ پنے کھودنے آوں گا۔ دل میں خدا کا وہم پرویا جا رہا تھا جہاں چالیس سال بعد خدا کی جگہ ایک شگاف ہو گا، کالے بادلوں میں گِھرا۔۔ میں زبانوں کےاس بدنصیب شہر میں پیدا ہوا جہاں چپ کا دریا بہتا تھا۔ "حقیقت وہ شام ہے جس کا ڈوبتا سو...