Skip to main content

Boda Darakht


یہ کون کٌھنڈی آری سے میرا تنا کاٹ رہا ہے
کون میری وکھیوں کی ٹہنیاں توڑ رہا ہے
مجھ سے نیانوں کے جھولے بنانا،
یا سکول کی نِکی نِکی کرسیاں
میرے ہاتھوں سے سالنوں کے ڈونگے چمچ
میرے پیٹ سے سہاگ رات کے رنگلے پلنگ
چل بھانوے، مجھے انگیٹھی میں ڈال دے
میری آنکھیں بس میری رہن دے
میں نے اپنی ماں کا رستہ تکنا ہے
میں ایک بودا درخت ہوں
جسے سبزا دیکھے اسی سال ہو گئے ہیں
مائے وے مائے!


تیرے کہن پر
میں اپنی انتڑیاں پھیلائے
پانی ڈھونڈتے، ہزاروں فٹ نیچے آ گیا ہوں
مائے وے مائے !
یہ کدھر جنا تو نے مجھے؟
جدھر انّے دریا، پتھر ٹٹولتے رستہ بھول جائیں
کوے بھوک سے اپنے موئے ساتھیوں کے
ڈھانچوں کا سُکھا گوشت چابتے ہوں۔
کوئل موت کی تسبیح پڑھتی ہے مائے!
مائے وے مائے !
یہ کدھر جنا تو نے مجھے؟
جدھر سانپ زہر کی دوات میں اپنی زبان ڈوب کے شعر کہتے ہوں
جدھر مچھیوں کے آنسووں کا کھارا پانی یاد کرتے کشتیاں بودی ہو گئی ہوں
مائے میں ان کشتیوں سے بھی زیادہ بودا ہوں
ریت کے جھکڑ میں جو تیری تصویر بنتی ہے
اس سے ہر روز کہتا ہوں،
میں اس سال کے سوکھے میں
اور نیچےنہیں کھود سکتا
اسی سال ہو گئے یہ کہتے کہتے
میں اب اور نہیں کھود سکتا مائے!
مجھے اپنے خشک ہونٹوں میں داب لے
میرے ٹھنڈے پیر اپنے گرم پیٹ سے لگا لے
مجھے اپنے بوڑھے سینے میں بھر لے
میں تھک گیا ہوں
قسمے مائے
میں تھک گیا ہوں

Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے