Skip to main content

raat


رات ابھی جمی نہیں ، درد ابھی جنا نہیں
شعر سے خوں لکھا نہیں ، خون سے تو بنا نہیں


رات ہو چلی
صبح کا ہونا بھی ممکن تو ہے
چرخ جو گھومتا جا رہا ہے
ہاں مگر یہ ممکن نہیں
کہ اندوہ کی تاروں کی سختی میں کمی آ جاتے گی
چرخ جو گھومتاجا رہا ہے 


اک رات کُلفتوں سے برابر بھری ہوئی
اک خواب ہیولے سا، مجھے دیکھتا رہا 

رات کے دانت گو نہیں ہوتے
رات سانسوں کو چاب جاتی ہے
کرب کے بے زمین مردوں کو
رات خوابوں سےکھود لاتی بے

صبح ۔ ۔ دل ، گولیوں کے کُہرے میں
ہاتھ پر خوں سے رات لکھتا رہا
رات۔ ۔ رضی عدم کے پہلو میں
راکھ جنتا تھا خاک لکھتا رہا

موت کے رخنوں میں بھرتا ہوں میں سانسوں کا کہر
کوکھ میں اس رات کی خوں تھوکتے ہیں ہست و بود

رینگتی ہیں چونٹیاں، خون چوستی ہے جونک

ناڑ سے جو رات کی دھڑکنیں گزرتی ہیں
تیرےبغیر مری نیند کے صفحوں پر
خالی قلم سے خاموش نظمیں لکھی گئی ہیں
نب میری کھال کی پپڑیاں اتارتی ہے
جیسے اکھڑتے پینٹ سے لیپی دیواریں
کمرے میں ایک خاص سڑانھد ، بھر دیتی ہے 
میرے خوابوں کے سیم زدہ کمرے بھی
ایسی ہی بدبو دار ہیجان سے بھرے ہیں۔

رات پھر یاد نے تیری مجھے سونے نہ دیا
رات پھر خواب تمناؤں کے خاکستر سے
جل اٹھے اور کسک کا یہ گلابی دھواں
میرے پھپھڑوں کی ہر اک نالی میں بھر جانے لگا
رات کو ابر جو گرجا تو ہنسی گونجی تھی
رات کڑکی تھی جو بجلی تو سہم کر لپٹی
تیری نالے کی شبیہ مجھ سے کہ تم لپٹی ہو
رات پھر یاد نے تیری مجھے سونے نہ دیا 


رات کی سلوٹوں کی اک اک آہ
لمس کے سگرٹوں کو پھونکے گی
شہوتیں مغز چاٹ جائیں گی
چاندنی ظلمتوں کو پھونکے گی 

Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے