Skip to main content

Kashmiri Shawl


وہ جو دور کھڑکی پہ لٹکی ہے دھوپ سے بچنے کو
کسی نے بہت چاؤ سے کشمیر کی تنگ گلیوں سے
خریدی ہو گی 
جانے خواہشوں کے کتنے چکور 
انجان پہاڑوں سے اڑ کر
اُس وادی میں آن بیٹھے ہوں گے
جہاں ایک نو بیاہتا بیوہ اپنے شہید شوہر کی یاد میں
لال پھول کاڑھتے کاڑھتے بوڑھی ہو گئی تھی
(وہ چکور دیواروں پر کبھی نہیں بیٹھتے
کیونکہ کشمیر کی دیواریں خاردار تاروں
اور کانچ کے ٹکڑوں سے گوندھی گئی ہیں
لے کے رہیں گے آزادی چیختے چیختے وہ بھی کبڑی ہو گئی ہیں)
جیسے کھڈیوں کی لَے کو شال کے دھاگے پہچانے ہیں
پیچھا کرتی جیپ کی چنگھاڑ کو 
بندوق کی گرم نالی سے نکلتی دھاڑ کو
اور اس آواز سے گونجتے پہاڑ کو
بھی شال کے دھاگے جانتے ہیں
اور اس آہ و بکا سے دور
جہلم کی مٹیالی سرگوشیوں سے پرے
اس شال کا تحفہ دیتے ہوئے اس نے سوچا ہو گا کہ شاید یوں یہ شال آزاد ہو جائے
اس کے ریشے، جاڑے کی ٹھنڈ میں، کسی سٹریٹ لائٹ کے نیچے ایک گداز جسم کو گرمائش پہنچائیں
پر وہ تو دور کھڑکی پر لٹک رہی ہے دھوپ سے پچنے کو
جیسے نئی نویلی دلہن ہو اور پہلے ہی دن
چپ چاپ رسوئی گھر میں چولھا جھونک رہی ہو

Comments

Popular posts from this blog

پرا ‏میرا ‏خود ‏کشی ‏نہ ‏کر

 بشارت نے سلام کیا اور اندر داخل ہوا پر بٹ صاحب نے جواب نہ دیا۔بشارت کے پوچھنے پر بتایا کہ خود کشی کے محاسن پر تصنیف حیدر کا مقالہ پڑھ بیٹھے ہیں۔  "  ہون ای منڈا جیا وی خود کشتی کرن لگا جے۔ آرٹیکل پڑھا ہے آپ نے ؟ " بٹ صاحب  غصے میں گویا ہوا  "چنگا پھلا لکھا، بولدا اے ۔ مینو نئیں پتا کیوں، پر خوش رنگ پھلاں نو کملان دی بُوہتی کالی ہوندی ہے۔ " ۔  بشارت جو کبھی کبھی ہکلاتا  بھی تھا بولا  "  یہ مقالہ تو تین چار برس  پ پ پ پرانہ ہے، پڑھ کر میں بھی کچھ پریشان ہوا تھا کہ جلد تص تص تص تصنیف حیدر سے  تص تص  تصلیب حیدر ہونے کو ہیں، پر وہ زندہ ہیں۔ اب وہ لڑکی جس کے ساتھ انھوں نے خودکشی کا پیلان بنایا تھا، مفقود ہے یا آج کل کے حالات میں م م م  ملک الموت کے بزی سکیڈژیول میں آتم ہتیا کے لیے آپ ۔۔۔آپ۔۔۔ اپانیٹمنٹ ملنا محال ہے۔ احتمالاً پران تیاگ کا میلان تیاگ دیا گیا ہے یا کم از کم پوسٹپون تو کر ہی دیا ہے۔" "مجھے کبھی کبھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ خون تھوکتے عاشق ادب کے فوق البشر کیوں اور کب بن بیٹھے۔ اب یہ چاہے میرا جی ہوں، ٹالسٹائی ہوں، جون ہوں۔ غالب و بیدل ہوں یا شو کم

بدیہی بکواس

کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔ تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔ ناول کے protagonist نے antagonist سے   بغلگیر ہو کر کہا "یہ   جو میں نے تمھارے ساتھ کیا،   میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا   تم نے کب کیا۔ یہ   سب تو ایک سوانگ ہے۔ " اسے  یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا   " بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھئو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔ " کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلیکارڈز بنائیں گے۔ پر پلیکارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ دکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا نیلا گاڑھا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھ

Jamtay Khoon kay jalay

جمتے خون کے جالے جمتے خون کے جالے مجھے  (ریشم کے کیڑے کی مانند ) مجھ میں مقید کر چکے ہیں  حیض ابل رہا ہے نس نس سے  کچے گوشت کی بو  کرگسوں کے جھرمٹ  چیختے ہوئے  ایک ساحل پر لیٹی عورت  (ایسے جیسے اس کی بچہ دانی  مردہ بچوں کا گھر ) وہ آبلہ پا  اسکی تمنائیں بے سد  مردہ بچہ ، لال سمندر  کرگس اسے نوچتے ہوئے