آه جکڑے ہے رگِ جاں کو یا کیڑوں کا ہجوم ،ریشہ ریشہ بنُے، ریشم کے رسن طوق کیے ؟
پھر سے دُزدانِ ابد، بحرِ فنا کے قزاق
میری راتوں میں تلاطم کے پیالے تھامے
سینے پیٹیں ہیں ، لہو روئے ہیں ، بتیاتے ہیں
سچ کی آغوش ،اے خرموش ، پرتگاه ِعمیق
سچ کی آغوش وہ بے پایاں لحد ہے جس میں
رمزِ ہستی کے کئی لاکھ چھچھوندر مدفون"
! بام فردوس سے کودیں گے حشیشین ابھی
! منہ میں دابے ہوئے طوماروں پہ پیغامِ خدا
برہنہ حرف معانی کے لبادے اوڑے
اک گرانڈیل سے سائے کی طرح رقصاں ہیں
آتشِ عقل کے، الحاد کے گرد
اک پریزاد کے گرد ۔۔۔
Comments
Post a Comment