رات سالوں میں تھی مگر ہم پر
سال بھی تو گزر ہی جاتے ہیں
ہم میں ہم تھے نہیں رہے تو کیا
ہم سے رہتے نہیں گزر ہی جاتےہیں
ہم سے ایسے ہیں درہم و برہم
اپنے دیوار و در جلاتے ہیں
ہم نے مرنا ہے مر گئے ہونگے
تیری باہوں میں مر ہی جاتے ہیں
سوچتے ہیں سبھی که ہیں موجود
پھر یہ بسمل کدھر کو جاتے ہیں
دل جلے ہیں سو دل جلائیں کیا
دل جلے ہوں تو دل جلاتے ہیں
سانس کے چھل میں اور کیا گزرے
رک گئے جو گزر ہی جاتے ہیں
اک مدام اور پہلوئے جانا
ہم کہ مرتے مکر ہی جاتے ہیں
کج نگاہ ہیں یہ آسماں والے
چل زمیں پر ہی گھر بناتے ہیں
Comments
Post a Comment