Skip to main content

Asma Jahangir kay naam


عاصمہ جہانگیر کے نام

شہسوارو
وقت کے گھوڑوں سے اترو
شاہ زاد ی، جسکی تند تلوار کے ڈر سے کبھی دشمن کے ہاتھی
اپنی فوجوں کو کُچل دیتے تھے وہ جنگجو سپاہی خاک ہوتی ہے
نِگوں سر، پر علم، اونچے اٹھاؤ
دل کی دھڑکن کو طرب کی تھاپ سمجھو
اور رجز گاؤ
خمیدہ حوصلوں کی لاش پرپڑھ کر انھیں پھونکو
ابھی جرأت کے بھالوں نے
نجانے کتنی زرہوں سے گزرنا ہے
اگر پیتل کی ڈھالوں کی نڈر آنکھوں کو پگلانے کا یارا
شاہ زاد ی ہی کے بس میں تھا تو سن لو شاہ زادی اب نہیں ہے
اب تمہاری سہمی تلواروں کو لڑنا ہے
المناکی؟
خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں
درد اتنا ہے کہ آھن کو نگل جائے
زبیحوں کا لہو پی لے
خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں
درد اتنا ہے کہ راتیں نیند کی دیواریں چاٹیں گی
مری ہڈیاں چبائیں گی
خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں
درد اتنا ہےکہ میری روح کا خیمہ اکھڑتا ہے
مگر نیزوں کو نیچے کرنا تلواروں کو رکھ دینا گناہ ہے
شاہزادی کی شجاعت کے علم اونچے کرو
گر شاہ زادی اب نہیں ہے اس کی شمشیروں نے جینا ہے
گلوں کو پھاڑ کر چیخو
ابھی گھمسان کا رن ہے

Comments

Popular posts from this blog

zanhar

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو رنگ تاروں کے غٹک کر وہ سرورِ خود میں لوٹ جاتا ہے ہر اک رات رہِ ابرق کو تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں احمریں ہاتھ، مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون مردہ چڑیوں کے زنخداں، تانبے کی چیخیں، گرتے ہاتھی کی فغاں، (کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں) اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے سب کے سب بار دفینوں سے بہا ل...

meningitis

یہ عجیب خط ہے کہ میں ہی اسے لکھ رہا ہوں اور میں ہی اسے پڑھے جاتا ہوں، تسبیح کی طرح، صبح شام۔ میں نے ضرورت سے زیادہ چشموں سے باتیں کی ہیں، قطروں کی ہنسی کو چھوا ہے، سرسراتی ہوا کی اداسی کو گھنٹوں چکھا ہے۔ میں سچ سن چکا، وہ سچ جو قبروں میں مقید مُردوں کو سنائے جاتے ہیں۔ وہ سچ جن کی تجلی زندوں کے حواسِ سامعہ کو سرمہ کر دے۔ تو پھر یہ سچ مجھے کیوں سنائے جا رہے ہیں؟ میں تو زندہ ہوں___کیا میں زندہ ہوں؟؟ میں گر رہا تھا، کالے بادلوں سے بارش کے قطروں کے ساتھ۔ میں بھی ایک قطرہ تھا،خون کا، ایک لوتھڑا، ایک جنین، بچہ دانی کی تلاش میں۔ مگر جس بچہ دانی میں مجھے جگہ ملی وہ خاردار تاروں سے گِھری تھی- جس کے باہر بندوق بردار لمبے قد اور داڑھی والے، پٹے رکھے پہرہ دار، پہرہ دے رہے تھے۔ یاداشت کے خالی رخنے تخلیق کیے جا رہے ہیں، جہاں چالیس سال بعد میں اپنی تخلیق کے بوسیدہ پنے کھودنے آوں گا۔ دل میں خدا کا وہم پرویا جا رہا تھا جہاں چالیس سال بعد خدا کی جگہ ایک شگاف ہو گا، کالے بادلوں میں گِھرا۔۔ میں زبانوں کےاس بدنصیب شہر میں پیدا ہوا جہاں چپ کا دریا بہتا تھا۔ "حقیقت وہ شام ہے جس کا ڈوبتا سو...