عاصمہ جہانگیر کے نام
شہسوارو
وقت کے گھوڑوں سے اترو
شاہ زاد ی، جسکی تند تلوار کے ڈر سے کبھی دشمن کے ہاتھی
اپنی فوجوں کو کُچل دیتے تھے وہ جنگجو سپاہی خاک ہوتی ہے
نِگوں سر، پر علم، اونچے اٹھاؤ
دل کی دھڑکن کو طرب کی تھاپ سمجھو
اور رجز گاؤ
خمیدہ حوصلوں کی لاش پرپڑھ کر انھیں پھونکو
ابھی جرأت کے بھالوں نے
نجانے کتنی زرہوں سے گزرنا ہے
اگر پیتل کی ڈھالوں کی نڈر آنکھوں کو پگلانے کا یارا
شاہ زاد ی ہی کے بس میں تھا تو سن لو شاہ زادی اب نہیں ہے
اب تمہاری سہمی تلواروں کو لڑنا ہے
المناکی؟
خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں
درد اتنا ہے کہ آھن کو نگل جائے
زبیحوں کا لہو پی لے
خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں
درد اتنا ہے کہ راتیں نیند کی دیواریں چاٹیں گی
مری ہڈیاں چبائیں گی
خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں
درد اتنا ہےکہ میری روح کا خیمہ اکھڑتا ہے
مگر نیزوں کو نیچے کرنا تلواروں کو رکھ دینا گناہ ہے
شاہزادی کی شجاعت کے علم اونچے کرو
گر شاہ زادی اب نہیں ہے اس کی شمشیروں نے جینا ہے
گلوں کو پھاڑ کر چیخو
ابھی گھمسان کا رن ہے
Comments
Post a Comment