زندگی بھر اٹھاۓ اٹھ نہ سکا
بار سانسوں کا ، اک حباب ہی تو تھا
کاٹتا تھا بریدہ اندهیاوؤ
رات اشباحِ اضطراب ہی تو تھا
دھڑکنیں رک گئیں ، یہی کہتے
نبض کیا ہے ، عذاب ہی تو تھا
دل لگی جسم کی ضرورت تھی
عشق خانہ خراب ہی تو تھا
اپنے شعروں میں جی لئے ورنہ
یہ دوام اک سراب ہی تو تھا
گو پزاوے میں آگ بھڑکے ہے
دل کا ایندھن شراب ہی تو تھا
میں نے دیکھا تو خوں چکاں پایا
اس نے بولا گلاب ہی تو تھا
Comments
Post a Comment