کہاں کی نیت کی بات کرتے ہو؟ پاکبازوں کی نیَتوں کی ؟
مرے سرہانے تو اس طرح کی کسی بھی نیت کے بت نہیں ہیں!
(ہُبل سِراپِس کے بھاری جسوں نے کب سمانا تھا میرے نطفے میں)
مرے سرہانے ،تو جسم کی بھوک کا دیوتا کھڑا ہے
کہاں سے ٹوٹے گا اس دیوتا کا بت کہ جس کا
خمیر ماؤں کی ناڑ میں ہو
لٹکتی جیبھوں میں اُسکی شہوت کےلاکھ شعلوں
کا رقص بھپکوں میں اڑ چکا ہے
ہزار روحوں کا ماس
چوہوں کی دم کی مانند
کُڑکیوں میں پھسا ہوا ہے
اٹا اندھیرا، پسینہ ،بدبو
خمار، جام و سبو سبھی ہیں
گداز جسموں پے کاو کاو آخری ہوس نشاں تو ہیں
نیتیں نہیں ہیں
--------------------------------------------------
ہُبل ، سِراپِس دونوں اپنے اپنے زمانے کے گرانڈیل خدا تھے - سراپس کو عیسایئوں نے ۳۸۹ عیسوی میں اور ہُبل کو مسلمانوں نے ٦۳۰ عیسوی میں نابود کیا تھا
کڑکی کا لفظ پنجابی میں چوہےدان کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔بھلے شاہ کے کلام میں بھی مستعمل ہے
ایسیاں لیکاں لائیاں مینوں ہور کئی گھر گالے
اُپّر واروں پاویں جھاتی وتیں پھریں دو آلے
لُکّن چھپّن تے چھلّ جاون ایہ تیری وڈیائی
جند کُڑکی دے منہ آئی
Comments
Post a Comment