وفورِ درد سے پھر بھر گیا ہے جام ابھی
اتارتا ہوں حلق سے یہ اِژدہام ابھی
یوں چھیڑ سوز کا ساز اب کے کچھ سنائی نہ دے
سبق خرد کے، نہ ہی اس کی ہنسی کی جھنکار
ہیولۂ غمِ دل ، نہ ہی خواب کا پندار
نشہ ہو اس قدر اب کے کہ کچھ دکھائی نہ دے
یہ روشنی جو ابھی میکدے میں ہے میرے
لہو کے لال چراغوں سے مرتعش کرنا
مجھے´ ابھی` کے کهربا میں بند کرنے کے بعد
ہزاروں سال سمندر کی تح میں رکھ دینا
میں مل رہوں گا کسی روز ایکسکویشن میں
میرے وجود کو مایکروسکوپ پر رکھنا
ہرایک سانس کے لاشے کو کاٹ کر تکنا
مری ہنسی کی یہ شریانیں کب پھٹی ہونگی
مری نگاہ کے بطن میں یہ بوزنے کس صبح
گھسے تھے، دھاڑتے اعلان ِشام کرتے ہوئے
Comments
Post a Comment