مری آنکھ یک دم کھلی دیکھتا ہوں
کھلی کھڑکیوں سے ، سریع گاڑیاں چیختی تھیں
کہ گھڑیوں کی ٹک ٹک کی آواز اتنی
بلند سے بلند تر ہوئی جا رہی تھی
کہ جیسے کوئی زور سے اپنے گرانڈیل ہاتھوں سے
ان ساعتوں کا طبل پیٹتا جا رہا ہو
وہ گرانڈیل مجھ کو جگاتا تھا ، جاگو!!
وہ سرگوشی کرتے ہوئے، نیم وا سی نظر مجھ پے ڈالے ، یہ کہنے لگی بھیڑیں گن لو
، اور اس ایک لحظے میں بھیڑوں کی جگہ
سر کٹے بھیڑیے ، اپنے دندان نیش
اور کالے مسوڑے نکالے
ہنسے جا رہے تھے
! ہنسے جا رہے تھے
، کوئی کھڑکیاں بند کر دے
کوئی بیٹری اس گھڑی کی نکالے
کوئی مجھ سے کہہ دے میں زندہ ہوں اور
،یہ فقط خواب ہے
ایک کابوس ہے
مرےحس کے پنجے
تنوں میں کھبے
شجر اوہام پر
چند لنگوروں کی مانند چڑھے جا رہے تھے
کوئی میرے برزخ کے اس گہرے کویں میں اب ڈول ڈالو
کوئی ؟
کوئی ہے ؟
سنو !!؟
کوئی ہے ؟
!!میں زندہ ہوں مجھ کو نکالو
کوئی عزرائیلوں سے ان اسرافیلوں سے کہہ دے
کہ اب صور پھونکیں ، میری روح کو قبض کر لیں
میں زندہ نہیں ،پر مرا بھی نہیں ہوں
میں اس دار پندار پر ، اپنی چند آخری ہچکیاں لے رہا ہوں
Comments
Post a Comment