تھامیے دل کو کس طرح کہ ہم
خود کو خود سے اچھال بیٹھے ہیں
کاڑھتے مجھ سے شورہ پشتوں کو
اپنی ہڈّیاں ابال بیٹھے ہیں
خلد کوں جا کہا کہ تنہائی میں
آپ بھی یوں نڈھال بیٹھے ہیں
میرے شعروں کی موجِ اوج پہ تم
اور میرے زوال بیٹھے ہیں
اس کو کیسے نکالیے دل سے
ہم کہ دل ہی نکال بیٹھے ہیں
دل سے مردے کے خون پینے کوں
کچھ گِدھوں سے ملال بیٹھے ہیں
میری پستی کی زرد غاروں میں
میرے سارے کمال بیٹھے ہیں
سر پہ پھر،آگہی سے ٹیک لگا
حسن کے خد و خال بیٹھے ہیں
دل کےبیٹھے ، وہم کے صوفوں پر
کیسے کیسے خیال بیٹھے ہیں
گولیاں داغیے خیال سے آج
رضی ایسے غزال بیٹھے
Comments
Post a Comment