وہ گھڑی آنے کو ہے
ہاں وہ گھڑی آنے کو ہے
تیر سکتے ہو تو تیرو!!
چند خداؤں کے حروف
جبرئیلِ وقت کی زمبیل میں ٹھونسے ہوئے
چونچ میں کنکر لئے ، لاکھوں ابابیلوں کی مثل
ہاتھیوں کی فوج کو مسمار کرنے آئیں گے
مچھلیوں کے سر تو صدیوں سے سرِ تسلیم خم تھے
اب زبانوں پر بھی ان کی قفل باندھے جائیں گے
اُن نے صدیوں میں تراشے تھے مجسمہ ہائے آب
جو نہنگ تاراج کر کے ، بت شکن کہلائیں گے
وہ گھڑی آنے کو ہے جس دم کفِ دریائے وقت
پھر عدم کے اس سمندر میں گرے گی اور یہاں
ناخدا جی اٹھائیں گے
ناخدا جو تب خدا ہونگے ، لکھیں گے لوح پر
دورِ پارینہ میں جلتی ، آتشِ نمرود پر
خضر و موسیٰ پھر لڑیں گے ، قتلِ نومولود پر
بھسم ہوں گے جسدِ خاکی جن سے ہو گی پھر نمود
چند نئی اقوام کی
ہم مگر باقی رہیں گے
ہم خداؤں کے حروف
ہم ابابیلوں کی چونچ
ہم ہی ماہی کی زباں
ہم مجسمہ ہاے آب
Comments
Post a Comment