بلب کا جبڑا کھلے ، آگ برس جاۓ تو ؟
گر یہ استخر ابھی ، خون سے بھر جاۓ تو ؟
یا یہ استخر
جہاں آب کے منشوروں سے)
(رنگ ہستی سے فنا کی یہ دھنک ابھری ہے
،کوئی استخر نہ ہو ، کوکھ ہو میری ماں کی
، اور میں میں نہیں ، شاید وہ اچھالتا پانی
جس نے سانسوں کی طنابوں کو پکڑ رکھا تھا
!!وائے قسمت کے مرے ہاتھ میں رسی نہ رہی
آہ میرا یہ جنیں خون اگلتا جاۓ
اس قدر خون مری ماں کا بطن بھر جاۓ
اس قدر خون کہ جراح کا لبادہ میرے
سرخ ایام کی تنہائی سا گاڑا ہو جاۓ
اورتانبے کے کسی گرم سے برتن میں ابھی
میرے لاشے کے کٹے لخت پڑے ہلتے ہوں
Comments
Post a Comment